فلسفہ قربانی اور اس کے تقاضے
ذوالہجہ اسلامی سال کا آخری مہینہ ہے اس کی اسلام میں بہت اہمیت ہے اس میں اہل اسلام کے لئے دو مبارک چیزیں حج اور بقرہ عید رکھی گئی ہے دونوں کا مقصد قربانی ہے قربانی کے زریعے اللہ رب العزت انسانوں کو اپنی قیمتی چیزوں کی قربانی دینا اور اس کے راستے میں سب کچھ قربان کر دینے کی اہلیت پیدا کرنا ہے
اسلامی سال کی ابتداء محرم سے ہوتی اور انتہا ذوالہجہ پہ ہوتی ہے غور طلب مقام ہے محرم میں جہاں امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے اہل خانہ کی قربانیاں ہیں تو وہاں فرعون سے حضرت موسی علیہ اسلام اور ان کی قوم کی آزادی کی نوید بھی ہے ان میں ،مشترک بات قربانی ہے
قربانی کیا ہے؟
اللہ رب العزت خود کہتا ہے کہ مجھے گوشت اور خون نہیں نیتیں مطلوب ہیں۔اخلاص مطلوب ہے وہی مقصود مومن ہے
اللہ دراصل قربانی کے زریعے دنیاوی مال ومتاع جس میں اولاد سب سے قیمتی متاع ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اس کی قربانی مانگی گئی جس کی یاد میں امت پر قربانی لازم کر دی گئی ،قربانی کا جذبہ جب تک نا ہو گھر سے لے کر ملک اور پھر قوموں کی بقا کا سفر تک قربانی میں مضمر ہے جذبہ قربانی قوموں کی متاع کا ضامن ہے
فلسفہ قربانی کا مطلب ہے کسی مقصد، اصول، یا اعلیٰ اخلاقی معیار کے لیے کسی چیز کی قربانی دینا۔ اس کے تقاضے درج ذیل ہیں:
1. **اخلاص و نیت**
حضرت ابراہیم کی قربانی کا واقعہ
– قربانی کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ یہ عمل خلوص نیت کے ساتھ کیا جائے۔ اس میں کوئی دکھاوا یا دنیاوی مفاد شامل نہیں ہونا چاہیے۔ قربانی کی نیت اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنا ہونا چاہیے۔
2. **ایمان اور یقین**:
– قربانی دینے والے کا اپنے مقصد اور اصول پر کامل ایمان اور یقین ہونا ضروری ہے۔ اسے یقین ہو کہ اس کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی اور اس کا اجر اسے ضرور ملے گا۔
3. **صبر و استقامت**:
– قربانی کا عمل صبر و استقامت کا متقاضی ہوتا ہے۔ قربانی دیتے وقت مشکلات اور آزمائشوں کا سامنا ہو سکتا ہے، لیکن قربانی دینے والا ثابت قدم رہتا ہے۔
4. **بڑائی اور عظمت کی تلاش**:
– قربانی دینے والے کا مقصد اپنی ذاتی بڑائی اور عظمت کی بجائے اللہ کی عظمت اور بڑائی کو تسلیم کرنا ہونا چاہیے۔ قربانی کا عمل اللہ کی رضا کے لئے ہو، نہ کہ دنیاوی شہرت کے لئے۔
5. **عزم و حوصلہ**:
– قربانی دینے کے لئے مضبوط عزم اور حوصلہ درکار ہوتا ہے۔ قربانی کا فیصلہ لینے سے پہلے اور بعد میں بھی استقامت کی ضرورت ہوتی ہے۔
6. **بے لوثی اور ایثار**:
– قربانی کا عمل بے لوث ہونا چاہیے۔ قربانی دینے والے کو اپنے مفاد کے بجائے دوسروں کے فائدے کے لئے سوچنا چاہیے۔
7. **احتساب نفس**:
– قربانی دینے والا اپنا محاسبہ کرتا رہے کہ اس کا عمل واقعی خلوص نیت کے ساتھ ہے یا نہیں۔ خود احتسابی کے ذریعے اپنی نیت اور عمل کو پرکھتا رہے۔
8. **اللہ پر مکمل اعتماد**:
– قربانی کے بعد اس کا بھروسہ اللہ پر ہونا چاہیے کہ وہ اس کی قربانی کو قبول کرے گا اور اس کا بہتر اجر دے گا۔
ان تقاضوں کو پورا کر کے ہی ایک شخص واقعی قربانی کے فلسفے کو سمجھ سکتا ہے اور اس کا صحیح معنوں میں اجراء کر سکتا ہے۔
گوشت ضرور بانٹیں مگر اصل مقصد قربانی کے پیچھے اللہ کی راہ میں سب کچھ قربان کر دینے کا جذبہ ہے وہی پیدا ہوگا تو ہم اصل میں امت بنیں گے اور فرد بن کر امت استوار کریں گے۔اللہ ہمیں حقیقی معنوں میں قربانی دینے کی توفیق دے۔فلسفہ قربانی