101

بجلی کا بل اور عوام

تحریر شئیر کریں

بجلی کا بل اور عوام


تحریر:روبینہ شاہین

پاکستان کی ایک چھوٹی سی بستی میں شام ڈھل رہی ہے۔ لوگ اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں، لیکن ان کے چہروں پر خوشی کے بجائے خوف اور پریشانی کے آثار نمایاں ہیں۔ جیسے ہی شام کی اذان کی آواز آتی ہے، محلے کی ایک گلی میں ایک خوفناک منظر نظر آتا ہے۔

محمد دین، جو کہ ایک محنت کش مزدور ہے، گھر آتا ہے اور اپنی جیب سے بجلی کا بل نکالتا ہے۔ بل کو دیکھتے ہی اس کا چہرہ پیلا پڑ جاتا ہے۔ “یا اللہ! یہ کیسے ممکن ہے؟” وہ بل کو حیرت اور پریشانی سے دیکھتا ہے۔ اس کی بیوی، زینت، جو کہ چولہے پر روٹی پکا رہی ہے، فوراً بھاگتی ہوئی آتی ہے۔ “کیا ہوا محمد؟” وہ پوچھتی ہے۔

“یہ بل دیکھو!” محمد دین کے ہاتھ میں بل لرز رہا ہے۔

زینت بل کو دیکھتی ہے اور اس کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔ “یہ کیسے ہوگا محمد؟ ہم کیسے اتنے پیسے دیں گے؟”

اسی دوران، باہر گلی میں آوازیں بلند ہوتی ہیں۔ پورا محلہ بلوں کی بھاری رقموں سے پریشان ہے۔ بچے بھوکے ہیں، بزرگ بیمار ہیں، اور جوان مرد و عورتیں بے بس نظر آتے ہیں۔ ہر طرف سے ایک ہی صدا سنائی دیتی ہے، “یہ ظلم ہے!”

یہ بھی پڑھیئے

*بجلی کے بل اور پاکستان کا مطلب*

اچانک، ایک کونے میں، ایک شیطانی قہقہہ گونجتا ہے۔ لوگ مڑ کر دیکھتے ہیں تو ایک سیاہ سائے کو کھڑا پاتے ہیں، جو ان کی بے بسی پر ہنس رہا ہے۔ یہ طاغوت کا سایہ ہے، جو عوام کی پریشانیوں سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ وہ ان کی طرف اشارہ کر کے کہتا ہے، “تمہاری محنت کا یہ صلہ ہے۔ مزے لو، میرے غلامو!”

لوگ اس کی جانب دیکھ کر اور زیادہ بے بس ہو جاتے ہیں۔ ایک نوجوان لڑکا، علی، جو کہ بستی کے سب سے ہمت والا ہے، آگے بڑھتا ہے اور طاغوت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتا ہے، “ہمیں تمہاری باتوں سے فرق نہیں پڑتا۔ ہم محنت کریں گے، لیکن تمہارے ظلم کے آگے کبھی نہیں جھکیں گے۔”

طاغوت پھر سے قہقہہ لگاتا ہے، “تمہاری محنت تمہیں تباہ کر دے گی۔”

لیکن علی کی ہمت اور عزم پورے محلے کے لوگوں میں ایک نیا جوش پیدا کرتا ہے۔ وہ سب مل کر فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ حکومت کے سامنے احتجاج کریں گے، اپنے حقوق کے لیے لڑیں گے، اور ظلم کے اس نظام کو بدل کر رہیں گے۔ وہ سب صبر، محنت، اور دعا کے ساتھ اللہ کی مدد کے طلبگار ہوتے ہیں۔ ہر روز نماز کے بعد وہ دعا کرتے ہیں:

“یا اللہ، ہمیں اس ظلم سے نجات دلا۔ ہمیں صبر، ہمت اور کامیابی عطا فرما۔ ہماری محنت کو قبول فرما اور ہماری دعاؤں کو سن لے۔ آمین۔”

وقت گزرتا ہے اور ان کی دعاؤں کا اثر ظاہر ہوتا ہے۔ ایک دن حکومت ان کے احتجاج کو سن کر بجلی کے بلوں میں کمی کرتی ہے۔ لوگ خوش ہوتے ہیں، لیکن وہ جانتے ہیں کہ یہ سب اللہ کی مدد اور ان کی صبر، محنت اور دعا کا نتیجہ ہے۔

یہ کہانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا ضروری ہے۔ حالات چاہے جیسے بھی ہوں، حوصلہ، صبر، محنت اور دعا کبھی نہیں چھوڑنی چاہیے۔ اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو صبر اور محنت سے کام لیتے ہیں، اور ایک دن ان کی محنت کا پھل ضرور ملتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں