خوشیوں کا ساون
افسانہ :روبینہ شاہین
بارش کا موسم اپنے عروج پر تھا۔ ہوا میں نمی کی خوشبو اور بادلوں کا گرجنا دل کو بے چین کر دیتا تھا۔ کراچی کی گلیوں میں پانی بھر چکا تھا اور ہر کوئی اپنے گھروں میں دبکا بیٹھا تھا۔ ایسے ہی ایک شام میں، آمنہ اپنے چھوٹے سے کمرے میں بیٹھی تھی۔ اس کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی، لیکن اس کی نظریں کھڑکی سے باہر بھیگتے ساون پر جمی ہوئی تھیں۔
آمنہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ اس کے والد ایک مزدور تھے اور والدہ گھروں میں کام کرتی تھیں۔ آمنہ کا خواب تھا کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرے اور اپنے والدین کا سہارا بنے، لیکن مالی مشکلات کی وجہ سے یہ خواب دور دور تک حقیقت میں بدلتا نظر نہیں آ رہا تھا۔اسے بچپن سے ہی بارش بہت اچھی لگتی تھی مگر آج اسےساون اور بارش سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس کا دماغ فیس کے مسئلے میں اٹکا ہوا تھا جو پچھلے تین ماہ سے ڈیو تھی۔ اگر اس ماہ بھی فیس نا دے سکی تو اسے کالج سے نکال دیا جائے گا۔ یہی سوچ سوچ کر اس کی آنکھیں بھی جل تھل ہونے لگیں۔
اگلے دن جب وہ کالج گئی اور بریک کے بعد ایک درخت کے نیچے افسردہ بیٹھی تھی، وہاں سے اچانک علی کا گزر ہوا۔ علی ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھتا تھا، لیکن وہ اپنی سادگی اور علم کی محبت کے باعث دوسروں سے مختلف تھا۔ اس نے آمنہ کی اداسی اور بے چینی کو محسوس کر لیا اور اس کے پاس آکر بیٹھ گیا۔
“کیا بات ہے، آمنہ؟ تمہیں اتنا افسردہ کیوں دیکھ رہا ہوں؟” علی نے نرمی سے پوچھا۔
آمنہ، جو پچھلے کئی دنوں سے سٹریس میں تھی، علی کے پوچنے پر چپ نہ رہ سکی اور اپنی پریشانی بتا دی۔ “میری فیس نہیں دی گئی ہے، اور اگر میں نے اس ماہ بھی فیس نہ دی تو مجھے کالج سے نکال دیا جائے گا۔”
علی نے یہ سن کر مسکرایا اور کہا، “بس اتنی سی بات؟ سمجھو تمہارا مسئلہ حل ہوگیا۔ چلیں، کینٹین میں چلتے ہیں اور چائے پیتے ہیں۔”
آمنہ کو علی کی بات پر یقین نہیں آیا، لیکن اس نے علی کا ساتھ دیا اور دونوں کینٹین کی طرف چل پڑے۔ چائے پیتے ہوئے، علی نے آمنہ کو بتایا کہ اس کی والدہ ایک تعلیمی فاؤنڈیشن چلاتی ہیں جو غریب بچوں کی تعلیم کے اخراجات برداشت کرتی ہے۔ “میری ماما ہر ماہ تمہاری فیس ادا کریں گی۔ تمہیں اب فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔”
آمنہ نے یہ سن کر حیرت اور خوشی کا ملا جلا اظہار کیا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور اس نے علی کا شکریہ ادا کیا۔ “علی، آپ نہیں جانتے کہ آپ نے میری کتنی بڑی مشکل حل کر دی ہے۔”
علی نے مسکرا کر جواب دیا، “آمنہ، دوستوں کا یہی کام ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کی مدد کریں۔”
وقت گزرتا گیا اور آمنہ کی تعلیم جاری رہی۔ اس کے مسائل کم تو نہیں ہوئے، لیکن اس کی محنت اور لگن نے اسے کبھی ہار نہ ماننے دی۔ آمنہ نے علی کے ساتھ مل کر فاؤنڈیشن کے کاموں میں بھی حصہ لینا شروع کر دیا جس کی مدد سے سینکڑوں بچے تعلیم کے زیور سے فیض یاب ہو رہے تھے
آمنہ اور علی کے درمیان محبت آہستہ آہستہ پروان چڑھی۔ ایک دن، علی نے اپنے والدین کے سامنے بیٹھ کر بات کی۔ “ماما، مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے۔”
شاہنور بانو نے محبت بھری نظروں سے علی کی طرف دیکھا۔ “کہو بیٹا، کیا بات ہے؟”
علی نے تھوڑی ہچکچاہٹ کے بعد کہا، “ماما، میں آمنہ سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔”
یہ سن کر شاہنور بانو کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ “کیا؟ تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہوا؟ ایک معمولی سی غریب گھرانے کی لڑکی میری یعنی شاہنور بانو کی بہو بنے گی؟”
علی ماں کی باتوں سے بہت افسردہ ہوا اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔ بہت سے دن گزر گئے، اور علی نے گھر والوں سے بول چال بند کر رکھی تھی۔ پھر ایک دن شاہنور بانو کی اچانک طبعت خراب ہو گئی۔ ٹیسٹ کروانے پر پتہ چلا کہ انہیں کینسر ہے، وہ بھی آخری سٹیج پر۔
یہ خبر سن کر خاندان میں ہلچل مچ گئی۔ شاہنور بانو کے پاس صرف تین ماہ کا وقت تھا۔ جس جس نے سنا، اس کے پاؤں تلے زمین نکل گئی اور شاہنور بانو کی تو دنیا ہی ختم ہونے والی تھی۔ اس کے ہونٹ چپ تھے، مگر آنکھوں میں رقصاں موت کی چاپ صاف دکھائی دیتی تھی۔ وہ اپنے کمرے تک محدود ہو گئی اور ایک ماہ اسی طرح بیت گیا۔
علی کو کچھ ہوش نہ تھا، اسے اپنی ماں کی فکر تھی۔ وہ اپنی ماں کو باہر لے جانا چاہتا تھا علاج کے لیے۔ اس کا ماننا تھا کہ ہمارے ذمے کوشش ہے ہمیں وہ ضرور کرنی چاہیے۔ آمنہ علی اور اس کی والدہ کے لئے دعاگو تھی۔
اگلے ہفتے علی نے شاہنور بانو کو لے کر امریکہ جانا تھا جب شاہنور بانو نے علی اور آمنہ کی شادی کا فیصلہ کیا۔ وہ یہ کام امریکہ جانے سے پہلے کرنا چاہتی تھی۔ سو آج شام ہی آمنہ کے گھر رشتہ لے کر جا پہنچی۔ آمنہ اور علی بہت خوش تھے۔ پھر ایک شام سادگی سے ان کا نکاح ہوگیا اور وہ ایک اٹوٹ بندھن میں بندھ گئے۔ دونوں ایک دوسرے کو پا کر بہت خوش تھے۔
تین دن بعد ان کی فلائیٹ تھی اور آمنہ بھی ان کے ساتھ جا رہی تھی۔
امریکہ میں شاہنور بانو کا علاج جاری تھا۔ ڈاکٹر پر امید تھے، مگر رپورٹس حوصلہ افزاء نہیں تھیں۔ آمنہ نے سورہ رحمن تھیراپی شروع کی۔ وہ سعد الغامدی کی آواز میں دن میں تین بار سورہ رحمن کی تلاوت سنتی تھی۔ تلاوت لگانے سے پہلے پانی کا گلاس پاس رکھتی اور اللہ کا نام لے کر تلاوت چلاتی۔ اس سے پہلے یہ الفاظ کہتی، “میرے اللہ، مجھے معاف کر دے، میں نے بھی سب کو معاف کیا۔” جب تلاوت مکمل ہوتی، تو آنکھیں بند کیے تین گھونٹ میں پانی پیتی۔
جب سے شاہنور بانو نے سورہ رحمن تھیراپی شروع کی تھی، وہ زندگی کی طرف پلٹنے لگی تھی۔ ایک ہفتے میں رپورٹس بہتر ہونا شروع ہو گئیں۔ ڈاکٹرز حیران رہ گئے تھے۔ شاہنور بانو کی صحت میں مسلسل بہتری آ رہی تھی، اور اس کے دل میں امید کی کرن جاگ اٹھی تھی۔
تین ماہ بعد، شاہنور بانو صحت یاب ہو کر واپس پلٹ آئیں۔ ٹرسٹ کا سارا کام اب علی اور آمنہ کے ذمے تھا۔ شاہنور بانو یکسر بدل چکی تھیں۔ قرآن کی سورہ رحمن کی شفایابی سے متاثر ہو کر قرآن کی طرف پلٹ آئیں۔ وہ اب قرآن کو سمجھ کر پڑھ رہیں تھیں۔ اندھیرے چھٹتے جا رہے تھے اور روشنی بڑھتی جا رہی تھی۔
بارش کا موسم آمنہ کی زندگی میں خوشیوں کا پیامبر بن گیا۔ آج وہ ایک کامیاب پروفیسر تھی اور اس کا خواب پورا ہو چکا تھا۔ علی اور آمنہ کی محبت نے نہ صرف ان کی زندگی کو سنوارا بلکہ ہزاروں بچوں کے مستقبل کو روشن کیا۔
ساون کا موسم تھا بارش کے بعد ہر چیز سہانی ہوگئی تھی۔ آمنہ، علی اور شاہنور بانو لان میں بیٹھے چائے کے ساتھ پکوڑے کھا رہے تھے۔ آمنہ کا دماغ کچھ سال پہلے والے ساون پر پہنچ گیا جب وہ کمرے میں بیٹھی رو رہی تھی اور اگلی صبح علی اس کی زندگی میں آیا تھا۔ یوں وہ ساون اس کے لئے بدلاو لایا تھا اور آج ایک بار پھر ساون آیا تھا، سب کچھ بدل چکا تھا۔ وہ ماں بننے والی تھی۔
آمنہ کو سوچوں میں گم دیکھ کر شاہنور بانو پوچھے بغیر نہ رہ سکیں۔ “آمنہ بیٹا، کیا سوچ رہی ہو؟”
آمنہ نے مسکراتے ہوئے کہا، “امی، میں اس ساون کو یاد کر رہی ہوں جب میری زندگی میں تبدیلی آئی تھی۔ آج ایک اور ساون ہے اور میں پھر سے نئی زندگی کی خوشیوں میں گم ہوں۔”
شاہنور بانو نے محبت بھری نظروں سے آمنہ کی طرف دیکھا۔ “آمنہ بیٹا، تم میرے لئے رحمت بن کر آئی ہو۔ تمہارے آنے سے میری صحت ہی نہیں بلکہ آخرت بھی سنورنے لگی ہے۔ میں تمہارا احسان کبھی نہیں بھول سکتی۔”
شاہنور بانو نے آمنہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور نم آنکھوں سے دیکھنے لگیں کہ اچانک بارش کی بوندیں ٹپکنے لگیں،شاہ بانو عصر کی نماز کے لئے چل دی اور علی اور آمنہ بارش سے لطف اندوز ہونے لگے۔
ان کی زندگی میں ایک بار پھر خوشیوں کا ساون آیا تھا جس نے ہر چیز جل تھل کر دی تھی