سید منور حسن کی یاد میں
“ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن۔”
ابتدائی زندگی
سید منور حسن 5 اگست 1941 کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ وہ دہلی کی طرز معاشرت اور دہلوی آداب و شائستگی کا تصویری نمونہ تھے۔ انہوں نے 1963 میں جامعہ کراچی سے سوشیالوجی اور پھر اسلامک اسٹڈیز میں ماسٹرز کیا۔
تعلیمی اور تنظیمی سفر
1960 میں اسلامی جمعیت طلباء سے وابستہ ہونے سے پہلے وہ بائیں بازو کی طلباء تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (این ایس ایف) کراچی کے ساتھ منسلک تھے۔ پھر کچھ رفقا کے ذریعے اسلامی جمعیت طلباء اور سید مودودی کے لٹریچر سے آشنا ہوئے اور اسی تنظیم کے ہو کر رہ گئے۔ زمانہ طالبعلمی میں جمعیت میں شامل ہوئے اور پھر جامعہ کراچی کے ناظم بن گئے۔ ان کی عزم، حوصلے اور مشن سے لگن نے انہیں اسلامی جمعیت طلبہ کا ناظم اعلیٰ منتخب کروایا۔ وہ کل تین بار ناظم اعلی منتخب ہوئے۔ تعلیم اور جمعیت سے فراغت کے بعد 1967 میں جماعت اسلامی پاکستان سے وابستہ ہوگئے۔
شخصیت اور خدمات
سید منور حسن ایک عظیم انسان، بہترین دین اسلام کے داعی اور سید ابو الاعلی مودودی سے نہایت محبت و عقیدت رکھتے تھے۔ وہ ایک درویش صفت مجاہد اور بیدار مغز سیاسی رہنما تھے۔ ہر ایک کے ساتھ بہترین دوست اور ساتھی کا رویہ اختیار کرتے تھے۔ آپ نے پوری زندگی ملک میں نفاذ دین اسلام کی جدوجہد میں صرف کردی۔
اعلیٰ اخلاق اور طرز زندگی
اللہ رب العالمین سے محبت اور رسول اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری کا ایک مکمل نمونہ تھے۔ سید صاحب اسلام کے لیے اور خاص طور پر خوشحال اسلامی پاکستان کے لیے پرعزم تھے۔ ان کی تقریر میں آسمانی بجلی کی سی کوند سنائی دیتی تھی اور وہ ایک بہترین خطیب تھے۔ ابتدائی دنوں سے ہی اپنی چال ڈھال و لباس کو مکمل پاکستانی کلچر کا نمونہ بنا دیا تاکہ کسی کو بھی ان میں سوشلسٹ ماضی کی چھاپ نہ دکھائی دے۔
جمعیت طلباء سے محبت
جمعیت سے ان کی محبت کا اندازہ بہت واضح تھا۔ جب وہ جمعیت طلباء میں شامل ہوئے تو مولانا سید ابو الاعلی مودودی نے انہیں ایک خط لکھا تھا جس میں تحریر تھا کہ خرشید صاحب کے بعد آپ کا آنا ہماری تحریک اسلامی کے لیے باعث خیر و برکت ہوگا، ان شاء اللہ۔
سادگی اور ایمانداری
سید صاحب نے اپنے بچوں کی شادی انتہائی سادگی سے کی اور رسم و رواج کو بالکل حائل ہونے نہیں دیا۔ ان کے گھر کا تمام فرنیچر سادہ اور پرانے زمانے کا تھا اور گھر میں صرف ایک دن کے علاوہ اگلے دن کے لیے کوئی راشن نہیں تھا۔ سید صاحب نے ہمیشہ کہا کہ غالب تو اللہ کے دین کو ہی آنا ہے چاہے کوئی عزت کے ساتھ قبول کرے یا ذلت کے ساتھ۔
آخری ایام اور دعائیں
جماعت اسلامی پاکستان میں مختلف ذمہ داریوں کو نبھانے کے بعد امیر بنے اور امیر جماعت بننے کے باوجود ایک چھوٹے سے مکان میں زندگی گزاردی۔ اللہ رب العالمین انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور ان کی سعی اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔ آمین۔
**عائشہ بی**
گلشن اقبال