66

کتابوں کی کشتی

تحریر شئیر کریں

کتابوں کی کشتی

افسانہ؛روبینہ شاہین

ساحل ایک کاہل لڑکا تھا جسے پڑھائی سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ سارا دن موبائل پر گیمز کھیلتا رہتا تھا۔ جیسے ہی وہ کتاب پکڑتا، اسے نیند آنے لگتی اور کتابوں میں دل نہیں لگتا تھا۔ ساحل کے دونوں بھائی، کاشان اور ریان، بہت ذہین تھے، جب کہ ساحل ہمیشہ ناکام رہتا۔

آج ساحل کا آٹھویں جماعت کا نتیجہ آیا۔ وہ میتھ، انگلش، اور سائنس، تینوں مضامین میں فیل ہو گیا تھا۔ اس کے برعکس، ریان اور کاشان نے اپنی اپنی کلاس میں پوزیشن حاصل کی اور ٹرافیاں لے کر گھر آئے۔ ساحل نے دیکھا کہ والدین اور سب گھر والے ان کی آؤ بھگت کر رہے تھے۔

والد نے خوشی سے کہا، “ریان، کاشان! ہم تم پر فخر کرتے ہیں۔” والدہ نے بھی خوش ہو کر کہا، “ساحل، تمہیں اپنی پڑھائی پر توجہ دینی ہوگی۔” جبکہ ساحل ایک کونے میں بیٹھا یہ سب دیکھ رہا تھا۔

رات دیر تک گھر میں خوشیوں کا ماحول رہا، مگر ساحل اپنے کمرے میں بند تھا۔ زندگی میں پہلی بار اس نے اتنی سبکی محسوس کی۔ وہ رو رہا تھا مگر آنسو اس کی آنکھوں سے نہیں بلکہ دل سے گر رہے تھے۔

اچانک اس کی آنکھ لگ گئی اور وہ خواب میں ایک جزیرے پر پہنچ گیا۔ چاروں طرف پانی تھا اور جزیرے پر زندگی کا کوئی آثار نہیں تھا۔ وہ جلد از جلد اس جزیرے سے نکلنا چاہتا تھا۔ اچانک اس کے سامنے ایک بڑی سی کتاب نما کشتی آئی، جس کے پنسل نما چپو خود بخود چل رہے تھے۔ ساحل حیران ہوا مگر ڈرتے ڈرتے کشتی نما کتاب پر سوار ہو گیا۔ کشتی گہرے پانیوں میں تیرتی ہوئی اسے اس کی منزل کی طرف لے جا رہی تھی۔

ساحل کی آنکھ کھل گئی۔ وہ فوراً اپنی دادی کے پاس گیا جو اسے بہت پیار کرتی تھیں۔ ساحل نے دادی کو خواب کے بارے میں بتایا۔

ساحل نے کہا، “دادی، میں بہت شرمندہ ہوں۔” دادی نے ساحل کو پیار سے سمجھایا، “بیٹا، شرمندگی کا کوئی فائدہ نہیں۔ اصل طاقت علم میں ہے۔ تمہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ علم ہی تمہیں کامیاب بنا سکتا ہے۔”

ساحل کی سمجھ میں بات آ چکی تھی۔ اس نے عزم کیا کہ اب وہ کتابوں سے دوستی کرے گا۔ وہ بہت خوش اور مطمئن تھا اور اسے یقین ہو چکا تھا کہ کتابوں کی کشتی ہی اسے زندگی کے سمندر میں پار لگا سکتی ہے۔

ساحل نے دادی سے کہا، “دادی، میں سمجھ گیا ہوں۔ اب میں کتابوں سے دوستی کروں گا۔”

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں