93

نماز بے حیائی سے کیسے بچاتی؟

تحریر شئیر کریں

نماز بے حیائی سے کیسے بچاتی ہے؟

بچپن میں سنا تھا کہ نماز ہمیں بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ بغیر سمجھے اس بات پر یقین سا ہو گیا تھا، مگر معلوم نہیں ہو سکا تھا کہ کیسے؟ کبھی سوچا تھا کہ شاید زندگی میں ایک نظم آ جاتا ہو، برے کاموں کے لیے وقت نہیں نکل پاتا ہو جب پانچ بار پاک صاف ہو کر اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کی عادت بن جاتی ہو۔ اس وقت بے حیائی اور برے کاموں کی تعریف نہیں معلوم تھی۔

اب، جب نماز کو ایک نئے انداز سے سمجھ رہی ہوں، دل اور روح کے بے حد بے چین ہو جانے کا وقت آیا ہے اور سکون صرف نماز میں ملتا ہے۔ ابھی زیادہ کچھ نہیں، نماز کی ایک ہی دعا پر غور کر رہی ہوں: “ہمیں سیدھے راستے پر چلا”۔ جو دعائیں اللہ تعالیٰ نے ہمیں سکھائی ہیں وہ گہری اور دلچسپ ہوتی ہیں۔ قرآن ویسے بھی جذباتی ذہانت میں مددگار ہے۔

اب جانا ہے کہ جب ہم “اھدنا الصراط المستقیم” مانگتے ہیں، تو یہ دعا ہمیں غیر ضروری سوچوں سے بچاتی ہے۔ میں نے زندگی کے چار سال جرنلنگ اور میڈیٹیشن سیکھنے اور سکھانے میں لگا دیے ہیں، مگر جو اثر یہ دعا رکھتی ہے، وہ اور کچھ نہیں۔

ہم اپنی کمزوریوں اور اپنی سوچ کی الجھن کا اقرار کرتے ہیں اس رب کے سامنے جو ہمارے دماغ، دل، روح اور وجود کا خالق ہے۔ پھر ہم اس سے رہنمائی مانگتے ہیں۔ سچ کہوں تو، چوبیس پچیس سال کی عمر تک یہ آسان نہیں ہوتا کہ ہم اپنی کمزوریاں یا غلطیاں مان لیں یا اپنے نفس کی تاریکیوں کو پہچانیں۔ لیکن چوبیس کے بعد، جوانی کی عبادت کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے۔ اگر آپ خود پر تھوڑی سی بھی محنت کر رہے ہوں، تو ہدایت کے لیے یہ سنہری عمر ہے۔

آپ اللہ اکبر کہتے ہیں اور پھر دعا مانگتے ہیں۔ یعنی آپ اپنے رب کی بڑائی اور عظمت کا اقرار کرنے کے بعد بھی یہ کہتے ہیں کہ آپ خوف رکھتے ہیں: انسانوں کا، اپنے جذبات کا، اپنی ہٹ دھرمی کے بڑھ جانے کا، اپنے نفس کی غلامی کا، اپنے بیوقوف رویے کا خوف۔ بے حیائی اور برے کام کا خوف! بے حیائی وہ بھی ہے کہ انسان اپنے رب کی نعمتوں سے انکار کر کے صرف آزمائشوں کو شمار کرے۔ برا کام وہ بھی ہے کہ انسان اپنے اندر موجود اچھائی کرنے کی طاقت اور جرات سے انکاری رہے، نیکی سے سستی دکھاتا رہے۔

اور تب آپ مانگتے ہیں: “مجھے سیدھے راستے پر چلا”۔ یہ سیدھا راستہ محض مذہبی راستہ نہیں، بلکہ شخصیت کی ہر کمزوری سے دور ایک ایسی وادی کا راستہ ہے جہاں آپ سلجھے ہوئے، نیک دل، خوبصورت دماغ اور سچے کھرے انسان بن کر چل سکیں۔ آپ ہدایت مانگتے ہیں اور ہدایت یہ بھی ہے کہ آپ کی جوانی کھوٹ سے پاک، امید سے بھرپور، دعاؤں سے بھری ہوئی اور بہترین سوچ پر مبنی ہو۔

مثلاً، جب میں آج کل بہت رو دوں تو فوراً کہتی ہوں: “اھدنا الصراط المستقیم” کہ مجھے یاس کی وادیوں میں گم نہ کر! مجھے امید اور ایمان کے بلند پہاڑوں کے دامن میں زندہ رکھ! اور پھر میں سوچتی ہوں کہ یہ جو آیت ہے: “اِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْكَرِ”۔۔۔ یہ سورہ عنکبوت میں ہے۔ عنکبوت مکڑی کے جالے سے جڑا ہے۔

اور میری عمر میں، ہم باہر اور اندر کی دنیا کے ان گنت جالوں میں پھنس جاتے ہیں۔ پھر ہم الرحمن سے مانگتے ہیں، جیسا کہ اس نے ہمیں سکھایا: “ہمیں سیدھے راستے پر چلا”۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں