ساون رت میں یوم آزادی
افسانہ:روبینہ شاہین
1947 کا ساون آیا تو ہر طرف بارشوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ زمین کی مہک نے فضا کو معطر کر دیا تھا اور کسانوں کے چہرے خوشی سے کھل اُٹھے تھے۔ لیکن اس بار ساون صرف خوشی کا پیغام نہیں لایا، بلکہ ایک نئے عزم اور قربانی کی یادوں کو بھی ساتھ لایا تھا۔
کالے بادل آسمان پر چھائے ہوئے تھے، اور بوندا باندی نے فضاء کو دھندلا دیا تھا۔ ہاجرہ بی بی اپنے چھوٹے سے کچے گھر کے دروازے پر کھڑی، آسمان کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کے دل میں ایک عجیب سی اُمید اور خوف کی ملی جلی کیفیت تھی۔ ابھی چند دن پہلے ہی اس نے سنا تھا کہ پاکستان بن چکا ہے۔ وہ آزاد ہو چکے ہیں، لیکن اس آزادی کی قیمت کتنی بھاری تھی، یہ ہاجرہ بی بی سے بہتر کون جان سکتا تھا۔
اس کا بیٹا، جو ابھی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ رہا تھا، اسی آزادی کے خواب کو پورا کرنے کے لیے اپنی جان کی بازی لگا چکا تھا۔ آج وہ اس موسم کی رم جھم میں اپنے بیٹے کی یادوں کو دل میں بسائے، اس امید کے ساتھ کھڑی تھی کہ شاید پاکستان کی زمین اس کے بیٹے کی قربانی کو ہمیشہ یاد رکھے گی۔
ساون کی رت میں بارش کا یہ شور ایک نئی دنیا کی خوش خبری دے رہا تھا۔ یہ وہ دنیا تھی جس کا خواب ہاجرہ بی بی کے بزرگوں نے دیکھا تھا۔ وہ پاکستان جس میں سب کو برابری کا حق حاصل ہو، جہاں ہندو مسلم سکھ عیسائی سب ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور بھائی چارے کے ساتھ رہیں۔
اچانک مسجد کے مینار سے اذان کی آواز بلند ہوئی۔ ہاجرہ بی بی کے دل میں ایک عجیب سکون سا اتر آیا۔ یہ وہی اذان تھی جسے سننے کے لیے اس کے بیٹے نے اپنی جان کی قربانی دی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ یہ اذان، یہ آزادی، اس کے آنے والی نسلوں کے لیے ایک امانت ہوگی۔
بارش کی بوندیں تیزی سے گرنے لگیں اور ہاجرہ بی بی نے اپنے سر پر دوپٹہ درست کیا۔ اس نے اپنے آنسو پونچھے اور دل میں عزم کیا کہ وہ اس نئی آزاد ریاست میں اپنا حصہ ڈالے گی۔ ساون کی رت نے اس کے دل میں ایک نئے عزم کو جنم دیا تھا۔
آج ہاجرہ بی بی نے نہ صرف آزادی کا جشن منایا، بلکہ اپنے بیٹے کی قربانی کو یاد کرتے ہوئے یہ عہد کیا کہ وہ اس نئی ریاست کو اپنے خون کے آخری قطرے تک سنوارے گی۔