78

پاکستان پر تنقید کیوں؟

تحریر شئیر کریں

پاکستان پر تنقید کیوں؟

کالم:روبینہ شاہین

پاکستان کے حالات کو برا بھلا کہنا ایک معمول بن چکا ہے،ہم بغیر سوچے سمجھے اپنے ملک اپنی۔دھرتی کو برا بھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں
اگر غور کریں تو اس کے پیچھے منفی سوچ کام کر رہی ہوتی ہے۔اپنی۔غلطیوں کو سدھارنے کی بجائے دوسروں کو۔برا بھلا کہنے یہ منفی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔
۔ کسی بھی قوم کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ضروری ہے کہ اس کے شہری اپنے وطن کی قدر کریں اور اس کی بہتری کے لیے تعمیری اقدامات کریں۔ پاکستان کے حالات کو برا بھلا کہنا نہ صرف قومی وحدت کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ عالمی سطح پر ملک کی ساکھ کو بھی متاثر کرتا ہے۔اور اس بات کی غمازی بھی کہ کہنے والا منفی سوچ کا حامل ہے۔

یہ سچ ہے کہ پاکستان کو مختلف مسائل کا سامنا ہے، جن میں معاشی بحران، بدعنوانی، اور تعلیمی پسماندگی شامل ہیں۔ یہ مسائل حقیقی ہیں اور ان کا سامنا کرنا اور انہیں حل کرنا ضروری ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم صرف تنقید کریں اور کچھ نہ کریں۔

تنقید کرنا آسان ہے، مگر تعمیری تنقید اور مسائل کے حل کے لیے تجاویز پیش کرنا اہم ہے۔ اگر ہم صرف برا بھلا کہیں گے تو اس سے مسائل حل نہیں ہوں گے، بلکہ مزید بگاڑ پیدا ہو گا۔ ہمیں اپنی تنقید کو تعمیری بنانا ہو گا، تاکہ ہم مسائل کے ساتھ ساتھ ان کے حل کے لیے بھی کچھ کر سکیں۔

جب ہم اپنے وطن کو برا بھلا کہتے ہیں تو اس سے قومی وحدت کو نقصان پہنچتا ہے۔ ایک قوم کی ترقی اس وقت ہوتی ہے جب اس کے شہری یکجا ہو کر ملک کی بہتری کے لیے کام کریں۔ ہمیں ایک دوسرے کو حوصلہ دینا چاہیے اور مل کر مسائل کا حل نکالنا چاہیے۔ اس سے نہ صرف ملکی ترقی ممکن ہو گی بلکہ قومی وحدت بھی مستحکم ہو گی۔

ایک مثبت سوچ اور امید کے ساتھ مسائل کا سامنا کرنا زیادہ مؤثر ہوتا ہے۔ اگر ہم ہر وقت منفی سوچتے رہیں گے تو ہم کبھی بھی مسائل کا حل تلاش نہیں کر سکیں گے۔ مثبت سوچ کے ساتھ ہم مسائل کو بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں اور ان کے حل کے لیے بہتر اقدامات کر سکتے ہیں۔

اسلام ہمیں صبر اور شکر کی تعلیم دیتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ امید اور مثبت سوچ کا پیغام دیا۔ ہمیں اپنے حالات پر صبر کرنا چاہیے اور اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ برا بھلا کہنے سے نہ صرف ہماری عبادت متاثر ہوتی ہے بلکہ ہمارے دلوں میں بھی مایوسی پیدا ہوتی ہے۔

ہمیں صرف باتوں پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے، بلکہ عملی اقدامات بھی کرنے چاہئیں۔ اگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے علاقے میں کوئی مسئلہ ہے تو ہمیں مل کر اس کا حل تلاش کرنا چاہیے۔ ہمیں اپنی حکومت سے بھی تعاون کرنا چاہیے اور ان کے اقدامات کی حمایت کرنی چاہیے تاکہ وہ بہتر طریقے سے کام کر سکیں۔

ہر شہری کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے وطن کی بہتری کے لیے کام کرے۔ ہمیں اپنے بچوں کو بھی یہی سبق دینا چاہیے کہ وہ اپنے ملک کی قدر کریں اور اس کی بہتری کے لیے کام کریں۔ اس سے ہماری آنے والی نسلیں بھی ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں گی۔

پاکستان کے حالات کو برا بھلا کہنا کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ ہمیں تعمیری تنقید کرنی چاہیے، مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے، اور قومی وحدت کو فروغ دینا چاہیے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق ہمیں صبر، شکر، اور مثبت سوچ کے ساتھ مسائل کا سامنا کرنا چاہیے۔ صرف اسی صورت میں ہم اپنے وطن کو بہتر بنا سکتے ہیں اور اس کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں