56

موت کا رقص

تحریر شئیر کریں

موت کا رقص: مومیتا دیوناتھ کی داستان



یہ رات عام راتوں جیسی نہیں تھی۔ چودہ اگست کی رات تھی، جب پورا ملک جشنِ آزادی منا رہا تھا، مومیتا دیوناتھ کے لیے یہ رات ایک خوفناک خواب میں بدل گئی۔ مگر یہ کوئی اچانک حادثہ نہیں تھا، یہ سب کچھ ایک منصوبہ بندی کے تحت ہو رہا تھا۔

مومیتا ایک ذہین اور محنتی میڈیکل انٹرن تھی، جو آر جی کار میڈیکل کالج میں کام کرتی تھی۔ وہ اپنے کام سے مطمئن تھی، مگر جلد ہی اسے کچھ عجیب و غریب حرکات کا علم ہوا۔ مومیتا کو پتا چلا کہ وہاں آرگن ٹریفکنگ اور ڈرگ مافیا کی سرگرمیاں چل رہی ہیں۔ وہ ایک ایسی دنیا میں قدم رکھ چکی تھی جہاں ہر قدم پر موت کا سایہ تھا۔

مومیتا نے دلیرانہ طور پر ان سب جرائم کا پردہ فاش کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے ثبوت جمع کیے اور ان تمام لوگوں کو دھمکی دی جو اس مکروہ دھندے میں شامل تھے۔ مگر اس نے یہ نہیں جانا تھا کہ اس کے آس پاس موجود ہر چہرہ ایک نقاب میں چھپا ہوا ہے۔

ہسپتال کی انتظامیہ، پرنسپل، سیاستدان، اور یہاں تک کہ پولیس—سب ہی اس جرم میں شامل تھے۔ وہ سب مل کر اس معصوم لڑکی کے خلاف سازش کرنے لگے۔ انہوں نے اسے روکنے کی کوشش کی، مگر مومیتا کا ارادہ مضبوط تھا۔

چودہ اگست کی رات، جب ہر طرف آزادی کی خوشیاں منائی جا رہی تھیں، ایک خوفناک منصوبہ عمل میں لایا گیا۔ پولیس کی مدد سے، ایم ایل اے سبھدیپ سنہا اور ان کے ہائر کیے ہوئے غنڈے ہسپتال میں داخل ہوئے۔ احتجاج کی آڑ میں، انہوں نے ہر وہ ثبوت تباہ کر دیا جو مومیتا نے اکٹھا کیا تھا۔

مگر اب صرف ایک زندہ ثبوت بچا تھا—مومیتا دیوناتھ۔

اس رات مومیتا کے لیے خوفناک ترین لمحہ تب آیا جب اسے گھیر لیا گیا۔ ان درندوں میں اس کی اپنی ساتھی انٹرن بھی شامل تھی جس نے اس کا ہاتھ پکڑ کر ان غنڈوں کے حوالے کیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب مومیتا نے خود کو بالکل تنہا پایا۔

سبھدیپ سنہا کے بیٹے اور اس کے ساتھیوں نے مومیتا پر حملہ کیا اور اسے بے دردی سے قتل کر دیا۔ قتل کے بعد، اس بہیمانہ جرم کو چھپانے کے لیے پوری کور سٹوری تیار کی گئی۔ پرنسپل نے مومیتا کی موت کو خودکشی قرار دیا، اور پولیس نے فوراً ایک بے گناہ شخص، سنجے رائے، کو گرفتار کر لیا اور اس سے اقبالِ جرم بھی کروا لیا۔

اگر یہ ایک عام قتل ہوتا، تو شاید یہ کہانی وہیں ختم ہو جاتی۔ مگر مومیتا دیوناتھ کی قربانی نے ان ظالموں کے پاپ کا گھڑا بھر دیا تھا۔ زمین و آسمان ہل گئے، اور وہ سب کچھ سامنے آ گیا جس کے لیے مومیتا نے اپنی جان قربان کی تھی۔

مومیتا دیوناتھ کی کہانی اس بات کا ثبوت ہے کہ سچائی اور حق کی راہ میں آنے والے کتنے بھی رکاوٹیں کیوں نہ ہوں، وہ آخرکار سامنے آ ہی جاتا ہے۔ اور یہ کہ ظالموں کے ظلم کا انجام ہمیشہ عبرتناکہوتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں