90

“مائیں سوتی نہیں”

تحریر شئیر کریں

“مائیں سوتی نہیں”

تحریر’روبینہ شاہین

“امی، آپ نے کبھی آرام نہیں کیا؟” عائشہ نے حیرت سے اپنی ماں کو دیکھتے ہوئے پوچھا، جب رات کے آخری پہر میں اُسے جاگتے دیکھا۔

“بیٹی، مائیں کبھی سوتی نہیں ہیں،” امی نے مسکراتے ہوئے نرمی سے کہا، “ان کا دل ہمیشہ جاگتا ہے، بچوں کی فکر میں، گھر کی حفاظت میں۔”

عائشہ کو ہمیشہ سے اپنی ماں کے اس معمول پر حیرت ہوتی تھی۔ امی رات کو جلد سونے کی دعویدار تھیں، لیکن جب بھی عائشہ کی آنکھ کھلتی، وہ کبھی جائے نماز پر، کبھی گھر کے کونے کونے میں کسی نہ کسی کام میں مصروف نظر آتی تھیں۔

ایک رات عائشہ نے ماں سے پوچھ ہی لیا، “امی، آپ سوتی کیوں نہیں؟ کیا آپ کو تھکن محسوس نہیں ہوتی؟”سوتی تو ہوں “اور ان کا سونا کیسا ہوتا تھا بات کرتے کرتے گھڑی دوگھڑی آنکھ لگ جانا ،اکثر بات کرتے کرتے کہتی زرا مجھے آنکھ لگا لینے دو ،دومنٹ کی اس آنکھ لگنے میں وہ ایسے فریش ہو جاتیں جیسے رات بھر سو کر اٹھی ہوں
عائشہ کی ماں کو اس دنیا سے گئے ایک سال ہوا تھا جب وہ خود ماں بنی،ماں بنتے ہی ممتا کی انمول دولت اس کے وجود میں انڈیل دی گئ اس خالق کائنات کی طرف سے جو ستر ماوں سے زیادہ پیار کرنے والا ہے۔

عائشہ کا سزیرن تھا درد سے برا حال تھا جب اس نے شوہر سے کہتے سنا نیند کی ٹیبلٹ لے لو ،میں ہوں نا بے بی کا خیال رکھنے کو اور وہ جو سونے کے بہانے ڈھونڈا کرتی تھی اس رات نیند کی گولی نا کھا سکی! بیٹی کی فکر نے اسے سونے نا دیا اور پھر ادراک ہوا کہ ماں بنتے ہی جو آنکھ کھلتی ہے وہ پھر بند نہیں ہوتی اور پھر اسے ماں کے کہے ہوئے الفاظ یاد آئے

“بیٹی، جب تک تم بچے ہو، مائیں جاگتی رہتی ہیں۔ اور جب تم ماں بنو گی، تمہیں بھی سمجھ آ جائے گی کہ ماؤں کا سکون ان کے بچوں کے آرام میں ہوتا ہے۔”

عائشہ نے اپنی ماں کی آنکھوں میں گہری محبت اور درد محسوس کیا۔ اُس دن اُسے احساس ہوا کہ ماں کی نیند تو بچوں کی حفاظت میں قربان ہو چکی ہوتی ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ، جب عائشہ خود ماں بنی، تو اس نے اپنی ماں کی باتوں کی گہرائی کو سمجھا۔ وہ بھی اب رات کو جاگتی رہتی، اپنے بچوں کی فکر کرتی۔ اُس کی نیند بھی اب اُسی فکر میں قربان ہو چکی تھی۔

ایک دن عائشہ نے اپنی بیٹی کے ساتھ بیٹھ کر کہا، “بیٹی، جب تم بڑی ہو جاؤ گی، تو تمہیں احساس ہو گا کہ ماؤں کے دل ہمیشہ جاگتے رہتے ہیں۔ یہ محبت اور فکر کی نیند ہے، جو کبھی ختم نہیں ہوتی۔”

“امی، کیا آپ دوسروں کے کام کرکر کے تھکتی نہیں؟” بیٹی نے معصومیت سے پوچھا۔عائشہ کے ف
دماغ میں یاد کی ایک اور پرچھائی لہرائی
کام تو بخت ہوتے ہیں میری جان !تھکنا کیسا !یہی وجہ تھی ماں کی کام یوں چٹکی میں ہوجایا کرتے کہ ہم حیران رہ جاتے ،اس کی وجہ ان کا خدمت خلق کا جذبہ تھا وہ دعائیں تھیں جو وہ دوسروں کے کام کرکے سمیٹا کرتی تھیں۔

جب لوگ عائشہ سے پوچھا کرتے کہ تم لوگ دیار غیر میں رہ کر بھی بھی اپنی جڑوں اپنی مٹی اپنی اقدار سے وابستہ ہو اس کی کیا وجہ ہے؟عائشہ کو بہت سال بعد جب اپنی بیٹی کو اپنے نقش قدم پہ چلتے دیکھا تو جواب مل گیا،ماں نے اسے جیسا بنانا چاہا ویسے کرکے دکھایا اور ہم ویسے بنتے چلے گئے بالکل کمہار کی طرح جو اپنی انگلیوں کو چاک پہ جیسے گھماتا ہے ویسا ہی برتن بنتا چلا جاتا ہے۔

عائشہ کی آنکھوں میں آنسو تھے، لیکن دل میں سکون تھا کہ اُس نے اپنی ماں کی قربانیوں کو سمجھا اور اُس کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کی۔

مائیں ابدی نیند سو کر بھی رہنمائی کرتیں ہیں عائشہ نے اس بات کو تب جانا جب ماں کی آنکھیں جو ہر وقت پہرا دیتیں اور بچوں کی بلائیں لیتیں نا تھکتیں تھیں ہمیشہ کے لیے بند ہوگئیں مگر خوابوں میں آکر اسے ہر پریشانی اور مسئلے کا حل بتانا یہ سب گواہ تھا کہ ماں چلی تو گئیں مگر روح ادھر ہی چھوڑ گئ جو اولاد کی محبت میں ہمکتی رہتی ہے
کیا چیز ہوتی ہیں مائیں بچپنے کا انعام ،قدرت کی انمول تخلیق ،سراپائے محبت کبھی نا تھکنے والییں سوتے میں بھی جاگنے والیں !اللہ سب ماوں کو سلامت رکھے۔آمین
“مائیں سوتی نہیں”

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں