**موت کا خوف**
عائشہ کی زندگی میں ایک بڑا سناٹا تھا۔ اس کا والد، جسے وہ اپنی دنیا سمجھتی تھی، اچانک اس دنیا سے چلا گیا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے جب اس کا باپ موت کی آغوش میں جا رہا تھا، تو اس نے اپنے دل میں ایک عجیب سا خوف محسوس کیا۔ موت کا خوف، جو اس نے پہلے کبھی محسوس نہیں کیا تھا، اب اس کے دل میں بسا ہوا تھا۔
جب اس کا والد بستر پر لیٹا ہوا تھا، تو اس کا جسم سرد اور بے جان لگ رہا تھا۔ عائشہ نے پہلی بار اپنے باپ کی زندگی کی طاقت کو مردہ ہوتے دیکھا۔ اس کا دل ڈر سے بھر گیا۔ اس نے سوچا، “کیا اگر میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہو جائے؟” اس لمحے نے عائشہ کے ذہن میں موت کی ایک گہری تصویر کھینچ دی۔
اس کے بعد، عائشہ نے اپنے والد کی ہر چیز سے دوری اختیار کر لی۔ وہ ان کی پرانی کتابیں، جوتے، اور کپڑے دیکھتے ہی خوف سے بھر جاتی۔ اسے لگتا کہ اگر وہ ان چیزوں کو چھوئے گی تو شاید اس کی اپنی زندگی بھی ختم ہو جائے گی۔ جب بھی وہ ان کے کپڑے دیکھتی، وہ انہیں چھیڑنے سے ڈرتی، کیونکہ ان کے جسم کی سردی اسے اپنی طرف کھینچتی۔
عائشہ کا خوف اس کی زندگی کے ہر پہلو میں داخل ہو گیا۔ وہ جب بھی دوستوں کے ساتھ باہر جاتی، اپنے والد کی یادیں اس کے دل کو کچوکے دیتی تھیں۔ وہ سوچتی، “کیا اگر میں نے اپنے والد کی طرح کسی دن زندگی کو چھوڑ دیا؟” یہ سوال اس کے ذہن میں گھومتا رہتا۔
پھر ایک دن، عائشہ کی دوست سارہ نے اسے اپنی طرف بلایا۔ وہ اس کے ساتھ ایک پارک میں گئی۔ وہاں سب بچے کھیل رہے تھے، ہنستے مسکراتے۔ عائشہ نے سوچا، “کیا مجھے بھی ہنسنا چاہیے؟” مگر وہ خوف کے سایے میں تھی۔ وہ ایک کونے میں بیٹھ گئی، اپنے دل کو تسلی دینے کی کوشش کرتی رہی۔
سارہ نے اس کا ہاتھ پکڑا اور کہا، “عائشہ، کیا ہوا؟ کیوں اتنی خاموش ہو؟” عائشہ نے اپنے دل کی بات سارہ کو بتائی۔ اس نے اپنی خوف کی داستان سنائی۔ سارہ نے اس کو سمجھایا، “موت کا خوف ہمیں کمزور بناتا ہے۔ ہم سب کو ایک دن جانا ہے، لیکن ہمیں اپنی زندگی کو جینا چاہیے۔ ہم اپنے پیاروں کو ہمیشہ یاد رکھ سکتے ہیں۔”
عائشہ کو سارہ کی باتیں سمجھ آئیں۔ اس نے محسوس کیا کہ خوف اس کے اندر موجود تھا، مگر اس کو زندگی کا ہر لمحہ جینا چاہیے۔ اس نے اپنے والد کی یاد کو دل میں بسا کر ان کی چیزوں کو چھونے کا فیصلہ کیا۔ اس نے اپنے والد کی کتابیں کھولیں، ان کی خوشبو محسوس کی، اور ان کے ساتھ اپنی یادیں تازہ کیں۔
وقت کے ساتھ، عائشہ نے سیکھ لیا کہ موت کا خوف اسے کمزور نہیں بلکہ مضبوط بنا سکتا ہے، اگر وہ اس خوف کا سامنا کرے۔ اس نے زندگی کی خوبصورتی کو محسوس کیا اور اپنے والد کی یادوں کو اپنے دل میں سجا کر آگے بڑھنے کا عزم کیا۔
اب عائشہ ہر چیز کو اپنی زندگی کا حصہ سمجھ کر قبول کرتی تھی، کیونکہ اسے پتہ چل گیا تھا کہ زندگی میں سردی بھی ہوتی ہے، مگر گرم یادیں ہمیشہ دل کو سنبھال کر رکھتی ہیں۔
48