44

سچ کا قتل

تحریر شئیر کریں

ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ جنگل میں بادشاہی کا نظام چل رہا تھا، اور ہر فیصلہ ایک بڑی کونسل میں ہوا کرتا تھا جہاں تمام جانور اپنے مسائل اور رائے پیش کرتے۔ لومڑی، جسے عقل و دانش کی علامت سمجھا جاتا تھا، ہمیشہ کونسل میں اپنی رائے رکھتی اور حق و انصاف کی بات کرتی۔ اسے جنگل کے کمزور جانوروں کا محافظ مانا جاتا تھا، اور اس کی باتوں میں سچائی اور بہادری کا رنگ جھلکتا تھا۔

ایک دن، جنگل کے بادشاہ شیر نے ایک نیا قانون پیش کیا جو جنگل کے طاقتور جانوروں کے مفادات کو مزید بڑھانے کے لیے بنایا گیا تھا، جبکہ کمزور جانوروں کو مزید دبانے کی سازش کی جا رہی تھی۔ کونسل میں سب خاموش تھے، لیکن لومڑی نے اس قانون کے خلاف اپنی آواز بلند کی۔ “یہ قانون جنگل کے اصولوں کے خلاف ہے،” لومڑی نے کہا۔ “اس سے صرف طاقتور جانوروں کو فائدہ ہوگا، جبکہ عام جانوروں کے حقوق پامال ہوں گے۔”

لومڑی کے الفاظ نے جنگل میں ایک نئی امید پیدا کی۔ کمزور جانوروں نے سوچا کہ شاید اب انصاف ہوگا اور وہ اپنے حقوق حاصل کر سکیں گے۔ لیکن شیر، جو بادشاہ تھا، اس نے خاموشی سے اپنی چال چلی۔ ایک رات، شیر نے لومڑی کو اپنے محل میں بلایا۔

محل میں، شیر نے لومڑی سے کہا، “تم بہت بہادر اور دانشمند ہو، لیکن کیا تم نے کبھی سوچا ہے کہ اگر تم میری بات مانو تو تمہارے لیے کتنے فائدے ہو سکتے ہیں؟ ہم دونوں مل کر جنگل پر حکومت کریں گے، اور تمہیں بھی طاقت اور دولت ملے گی۔”

لومڑی کچھ دیر خاموش رہی، اس کی آنکھوں میں ایک عجیب چمک آگئی۔ وہ سوچنے لگی کہ اگر وہ شیر کے ساتھ مل جائے تو اسے کتنے فائدے ہوسکتے ہیں۔ وہ کمزور جانوروں کے ساتھ ہمیشہ انصاف کی بات کرتی رہی تھی، لیکن اب دولت اور طاقت کا لالچ اس کے دل میں جگہ بنا چکا تھا۔

کچھ دن بعد، جب شیر نے نیا قانون پیش کیا، لومڑی خاموش رہی۔ جنگل کے جانور حیران تھے کہ لومڑی، جو ہمیشہ حق کے لیے لڑتی تھی، آج کیوں چپ ہے؟ قانون منظور ہوگیا، اور کمزور جانور مایوسی کے عالم میں رہ گئے۔

یوں لومڑی نے اپنے اصولوں کو پسِ پشت ڈال دیا اور طاقت و دولت کے پیچھے بک گئی۔ جنگل کے جانور اب اسے یاد کرتے ہیں، لیکن اس کی وہ سچائی اور بہادری کا رنگ کبھی واپس نہیں آیا۔

یہ کہانی اس بات کا سبق دیتی ہے کہ کبھی کبھار وہ جو حق کے علمبردار ہوتے ہیں، جب ذاتی مفادات کی بات آتی ہے، تو اپنے اصولوں کو چھوڑ دیتے ہیں۔

سچ کا قتل

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں