محنت کی قیمت
کنزہ ایک چھوٹے سے گھر کی بیٹی تھی، جہاں روزی روٹی کے لیے سب کو محنت کرنا پڑتی تھی۔ غربت کے سائے میں پلتی، کنزہ نے بچپن سے اپنی ماں کو ہاتھ سے سِلائی کڑھائی کرتے دیکھا تھا۔ اس کی ماں نے ہمیشہ اپنے دل میں ایک خواب رکھا کہ کنزہ ایک دن اپنے پیروں پر کھڑی ہو گی اور وہ محنت جو ماں نے کی، کنزہ کے مستقبل کو روشن کر دے گی۔
اسی خواب کو حقیقت بنانے کے لیے کنزہ نے محلے کی سلائی سینٹر میں جانا شروع کیا۔ وہاں کی اُستانی باجی اس کی زندگی میں ایک روشن چراغ بن کر آئیں۔ سلائی میں ماہر ہونے کے ساتھ، باجی کے دل میں خوفِ خدا کا نور بھرا ہوا تھا۔ ان کا ہر عمل، ہر بات آخرت کی یاد دلاتی، جیسے وہ کسی کو بھی اس دنیا میں پھنس جانے سے بچانے کی کوشش کر رہی ہوں۔
ایک دن، کنزہ نے بہت محنت سے ایک کرتا سیلا۔ اپنی ساری توجہ اور جذبے سے اس پر کام کیا اور خوشی سے جھوم اٹھی جب وہ تیار ہو گیا۔ آخر اس دن کی محنت اس کے سامنے تھی، ایک خوبصورت کرتا جس پر کنزہ نے پیاری سی لیس بھی لگا دی تھی۔ اس کا دل خوشی سے باغ باغ تھا۔ مگر خوشی کی یہ رونق بس پل بھر کے لیے تھی۔
باجی نے جب کرتی کو دیکھا تو ان کی آنکھیں گہرائی سے کنزہ کی غلطی کو پرکھنے لگیں۔ لیس الٹی لگی ہوئی تھی۔ کنزہ کا دل دھڑکنے لگا، محنت کی ساری خوشی پل میں ماند پڑ گئی۔ باجی نے شفقت سے کہا، ’’کنزہ، اسے دوبارہ درست کر لو۔‘‘
کنزہ نے دوبارہ لیس اتارنا شروع کر دیا۔ ہر ٹانکے کے ساتھ، اس کا دل تھوڑا تھوڑا مایوس ہوتا گیا، جیسے محنت کی ساری قیمت ضائع ہو گئی ہو۔ دو گھنٹے کی اضافی محنت کے بعد، کنزہ نے لیس دوبارہ لگائی۔ مگر اب اس کے چہرے پر تھکن اور دل میں بیزاری تھی۔
باجی نے کنزہ کا اترا ہوا چہرہ دیکھا اور دل میں کچھ سوچا۔ وہ ان لوگوں میں سے نہیں تھیں جو ہر وقت نصیحتیں کریں، مگر اس لمحے نے انہیں داعی بننے کا موقع دیا۔ انہوں نے کنزہ سے کہا، ’’کنزہ، جس طرح تم نے آج اپنا یہ کام دنیا کے لیے کیا، آخرت میں بھی ایسے ہی تھکے ہوئے چہرے لے کر کچھ لوگ آئیں گے۔ ان کی محنت بھی اسی طرح ضائع جائے گی کیونکہ وہ دنیا کے لیے کام کر رہے تھے، آخرت کے لیے نہیں۔‘‘
کنزہ نے سر اٹھا کر باجی کو دیکھا۔ اس کے اندر ایک نئی روشنی جاگ اٹھی۔ وہ سمجھ گئی کہ محنت کی اصل قیمت تب ہے جب اسے اللہ کے لیے کیا جائے، دنیا کے لیے نہیں۔
محنت کی قیمت