ایک دن، سعدیہ کو گھر میں اکیلے بیٹھے بیٹھے اچانک بھوک محسوس ہوئی۔ اس نے سوچا، “شاید میرا معدہ خالی ہو گیا ہے۔” جیسے ہی اس نے کچن کی طرف قدم بڑھائے، اسے اپنی دادی کی ایک بات یاد آئی، جو اکثر کہا کرتی تھیں، “*پہلے ہضم ہونے دو، پھر کھانا کھاؤ۔*”
دادی نے ایک بار اسے بتایا تھا کہ بھوک ہمیشہ اصلی نہیں ہوتی؛ بعض اوقات یہ محض ایک عادت ہوتی ہے، جسے ہم craving کہتے ہیں۔ دادی نے سعدیہ کو *نظام ہضم* کے مراحل سمجھائے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ جب کھانا منہ میں جاتا ہے، تو اسے چبایا اور لعاب کے ساتھ نرم کیا جاتا ہے۔ لعاب میں موجود ایک خاص اینزائم، ایمیلیس، کھانے کے کاربوہائیڈریٹس کو توڑنا شروع کرتا ہے، تاکہ معدے تک پہنچتے ہی کھانا آسانی سے ہضم ہو سکے۔
سعدیہ نے یاد کیا کہ دادی نے اسے بتایا تھا، “*معدہ بالکل دیگ کی طرح ہے۔*” جیسے دیگ میں گوشت کو نرم کیا جاتا ہے، اسی طرح معدہ تیزاب اور مختلف جوسز کی مدد سے کھانے کے ذرات کو توڑتا ہے۔ پھر یہ کھانا چھوٹی آنت میں پہنچتا ہے، جہاں جگر اور لبلبہ اسے مزید چھوٹے ذرات میں تقسیم کرتے ہیں اور غذائیت کو خون میں شامل کر دیتے ہیں۔
دادی نے سعدیہ کو سمجھایا تھا کہ یہ ہضم کا عمل کئی گھنٹے لیتا ہے اور جسم کو بار بار کھانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر ہم بار بار کھائیں، تو یہ معدے اور آنتوں پر اضافی بوجھ ڈالنے کے مترادف ہوتا ہے، جو صحت کے مسائل پیدا کر سکتا ہے۔
سعدیہ نے یہ باتیں یاد کرتے ہوئے سوچا، “*کیا واقعی مجھے ابھی بھوک لگی ہے یا یہ محض ایک عادتاً craving ہے؟*” کچھ دیر سوچنے کے بعد، اس نے کچن جانے کا ارادہ ملتوی کر دیا اور پانی کا گلاس پی لیا۔
اگلے دن سعدیہ دادی کے پاس جا کر بولی، “دادی، میں نے آپ کی بات پر عمل کیا اور اندازہ لگایا کہ واقعی بھوک حقیقی تھی یا عادتاً تھی۔ آپ کا شکریہ، آپ نے مجھے کھانے کی اہمیت اور نظام ہضم کو سمجھنا سکھایا۔”
دادی مسکرا کر بولیں، “یاد رکھو بیٹا، *ہر بھوک حقیقی نہیں ہوتی۔* ہمیں اپنے جسم کی ضرورت اور عادت کے فرق کو سمجھنا ضروری ہے تاکہ ہم صحت مند زندگی گزار سکیں۔”