سردی کا نسخہ
موسم بدل رہا تھا، ہوا میں ایک سرد مہک آ چکی تھی۔ زینب خالہ کی زندگی میں یہ تبدیلی ایک نئی مشکل لے آئی تھی۔ چھینکیں آنا، پٹھوں میں کھنچاو، یہ سب کچھ اس کی روزمرہ کی زندگی کا حصہ بن چکا تھا۔ خالہ اکثر بستر پر لیٹی رہتیں، اور ان کی حالت دیکھ کر لگتا تھا کہ جیسے وہ کسی صدیوں پرانی کہانی کی ہیروئن ہیں، جو اپنی بیماری کی قید میں ہیں۔
ایک دن، زینب خالہ کی پڑوسن فاطمہ آئیں۔ انہوں نے خالہ کی حالت دیکھی تو دل ہی دل میں فکرمند ہو گئیں۔ وہ جانتی تھیں کہ سردیوں کی یہ سختیاں زینب خالہ کے لیے کتنی تکلیف دہ ہیں۔ فاطمہ نے خالہ سے کہا، “خالہ، میں نے ایک ایسا نسخہ سنا ہے جس سے آپ کی طبیعت بہتر ہو سکتی ہے۔”
زینب خالہ نے شکوک و شبہات کے ساتھ پوچھا، “کیا یہ واقعی کام کرے گا؟”
فاطمہ نے مسکراتے ہوئے کہا، “جی ہاں، یہ بہت آسان ہے۔ آپ کو صرف ایک پاو پھول مکھانے، ایک پاو چنے کا پاوڈر، اور آدھا پاو بادام لینا ہے۔ ان سب کو اچھی طرح پیس کر پاوڈر بنا لیجئے۔ پھر اس پاوڈر کو رات کو دودھ میں ڈال کر پی لیں۔”
زینب خالہ نے فاطمہ کی باتوں کو غور سے سنا اور دل میں سوچا کہ یہ تو بہت آسان نسخہ ہے۔ انہوں نے کچھ دنوں بعد یہ نسخہ آزمانے کا فیصلہ کیا۔ جب انہوں نے یہ نسخہ استعمال کیا تو کچھ ہی دنوں میں انہیں خود میں ایک تبدیلی محسوس ہونے لگی۔
ہفتہ گزرتے گزرتے، زینب خالہ کی حالت بہتر ہونے لگی۔ وہ بستر سے اٹھ کر گھر کے کاموں میں مشغول ہو گئیں۔ جب سارہ، زینب خالہ کی بھتیجی، اگلے ہفتے ملنے آئی تو اس نے خالہ کو کام کرتے ہوئے دیکھا۔ وہ حیرت زدہ رہ گئی۔ “خالہ، آپ تو بالکل بدل گئی ہیں!” سارہ نے خوشی سے کہا۔
زینب خالہ مسکرائیں اور سارہ کو پورا واقعہ سنایا۔ “بس ایک سادہ سا نسخہ، اور اب میں دوبارہ اپنی زندگی جی رہی ہوں۔”
اس کہانی میں ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ کبھی کبھار زندگی کی چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں ہمیں بڑی خوشیوں کی طرف لے جا سکتی ہیں، بس ہمیں ان پر عمل کرنے کی ہمت کرنی ہوتی ہے۔