قاضی اور اونٹ
ایک دن، جنگل میں مختلف جانوروں کا ہجوم جمع تھا، سب کسی نہ کسی بحث میں مصروف تھے۔ جنگل کا بوڑھا اونٹ، جسے سب دانا مانتے تھے، انہیں کہانیاں سناتا اور ان کے سوالات کے جواب دیتا تھا۔ اسی دوران، ایک تیز عقل والے لومڑی نے ایک اہم سوال پوچھا:
“کیا انصاف کرنے والے قاضی بھی جنگل چھوڑ کر جا رہے ہیں؟ اور اگر وہ جا رہے ہیں، تو وہ اپنے اختیار اور مراعات کیوں اپنے ساتھ لے جاتے ہیں؟”
یہ سوال سن کر جنگل کے سب جانور سنجیدہ ہو گئے۔ دانا اونٹ نے ایک لمبی سانس لی اور کہانی سنانی شروع کی:
“ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ ہمارے جنگل میں بھی ایک قاضی ہوا کرتا تھا جو سب کو انصاف فراہم کرتا تھا۔ وہ ہمیشہ کہتا کہ انصاف سب کا حق ہے، اور اس کے لیے قاضی کو جوابدہ ہونا چاہیے۔ وہ بے لاگ فیصلے کرتا، چاہے اس کا سامنا بڑے جانوروں سے ہی کیوں نہ ہو۔
مگر ایک دن، جب قاضی کو لگا کہ جنگل کے قوانین میں اس کا کردار محدود ہو رہا ہے اور اس کے انصاف کو دبایا جا رہا ہے، اس نے اپنا ٹھکانہ کسی اور جگہ بنا لیا۔ وہ اپنے علم اور انصاف کے نظریے کو ساتھ لے کر چلا گیا، لیکن اس کے جانے کے بعد، جنگل میں انصاف کا معیار بہت متاثر ہوا۔
اب جانوروں کو قاضی کی یاد آتی اور وہ سوچتے کہ قاضی اپنے انصاف اور اصولوں کے ساتھ یہاں رہتا تو جنگل کا ماحول کیسا ہوتا۔ جنگل کے جانوروں کو احساس ہوا کہ ایک قاضی کا کردار کتنا اہم ہوتا ہے، اور اس کے بغیر معاشرہ ادھورا رہ جاتا ہے۔”
کہانی سن کر لومڑی نے سر ہلایا اور کہا، “شاید قاضی کو یہ یقین دلانا چاہیے کہ اس کا انصاف ہمارے جنگل میں بھی محفوظ ہے، تاکہ وہ کبھی اس جنگل کو نہ چھوڑے۔”
اس طرح، جنگل کے سب جانور اس بات پر متفق ہوئے کہ انصاف کرنے والے کو ہمیشہ محفوظ اور آزاد ماحول ملنا چاہیے تاکہ وہ کسی خوف یا دباؤ کے بغیر اپنی خدمات انجام دے سکے۔