“غیبت کی آگ”
روبینہ شاہین
وہ ایک عبادت گزار خاتون تھی، نماز میں پابند، روزے میں ثابت قدم اور خیرات میں کشادہ دل۔ مگر ایک خامی ایسی تھی جس نے اس کی عبادتوں کو خس و خاشاک کی طرح بکھیر دیا۔ وہ خامی تھی **غیبت** کی۔
جب بھی وہ محفل میں بیٹھتی، لوگوں کی خامیاں اور کوتاہیاں زبان پر آ ہی جاتیں۔ اسے یہ احساس ہی نہ تھا کہ یہ باتیں زبان سے نکلتے ہی اس کی نیکیوں کو ایسا جلا دیتی ہیں جیسے آگ خشک گھاس کو خاکستر بنا دیتی ہے۔ اسے لگتا تھا کہ وہ سچ بول رہی ہے، مگر حقیقت یہ تھی کہ اس کے یہ سچے الفاظ اُس فقیر کی جیب کے سوراخ کی طرح تھے جس سے ساری جمع کی گئی نیکیوں کی “ریزگاری” گرتی چلی جاتی۔
ایک دن مسجد میں مولوی صاحب نے ایک حدیث سنائی: **”غیبت زنا سے بھی شدید ہے”**۔ یہ الفاظ اس کے دل میں تیر کی طرح پیوست ہو گئے۔ اس نے دل ہی دل میں سوچا، “کیا میری نیکیاں واقعی اس قابل ہیں کہ انہیں غیبت کی آگ میں جھونک دوں؟”
مولوی صاحب نے ایک واقعہ بھی سنایا جو اس کے دل پر گہرا اثر چھوڑ گیا۔ فرمایا کہ **ایک صحابی کو معلوم ہوا کہ کوئی شخص ان کی غیبت کرتا ہے**۔ تو بجائے غصہ کرنے کے، انہوں نے اس شخص کو کھجوروں کا ایک ٹوکرا تحفے میں بھجوایا اور پیغام دیا، “**شکریہ کہ تم نے اپنی نیکیاں مجھے دے دیں**۔” یہ واقعہ سن کر خاتون کو شدت سے احساس ہوا کہ وہ غیبت کر کے اپنی نیکیاں دوسروں کو دے رہی ہے۔
یہ بات اس کی سمجھ میں آئی کہ **غیبت نہ صرف نیکیوں کو ختم کرتی ہے بلکہ روحانی و جسمانی سکون کو بھی برباد کر دیتی ہے**۔ اب اس نے دل سے دعا کی اور عہد کیا کہ زبان کو قابو میں رکھے گی اور غیبت سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرے گی۔ رفتہ رفتہ وہ اپنی محفلوں میں سکوت اور خاموشی کی عظمت کو سمجھنے لگی۔ اس دن سے اس کی نیکیاں بھی محفوظ ہو گئیں، اور دل کو سکون بھی حاصل ہوا۔