روشنی کا چراغ
ایک بستی جس کا نام” رحیمہ آباد “تھا جہاں کبھی امن، محبت اور سکون کا بسیرا تھا، لیکن وقت کے ساتھ فتنے اور فساد نے اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ لوگ ایک دوسرے سے دور ہو گئے، دل سخت ہو گئے، اور حق و باطل کی تمیز مٹنے لگی۔ ہر طرف نفسا نفسی اور بے چینی تھی، جیسے کوئی روشنی کا چراغ گاؤں سے غائب ہو گیا ہو۔
اسی گاؤں میں ایک لڑکی رہتی تھی جس کا نام **آمنہ** تھا۔ آمنہ کے والدین نے اسے بچپن ہی سے قرآن مجید پڑھنے اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنے کی تلقین کی تھی۔ قرآن اس کے لیے نہ صرف ایک کتاب بلکہ زندگی کا رہنما تھا۔ جب بھی وہ پریشان ہوتی، قرآن مجید کھول کر وہ تسلی پاتی۔
ایک دن گاؤں میں ایک بڑی خبر پھیل گئی۔ کہا گیا کہ گاؤں کے قریب کے میدانوں میں ایک بیش قیمت خزانہ دفن ہے، جو اسے حاصل کرے گا وہ سب سے طاقتور بن جائے گا۔ لوگوں نے خزانے کے لالچ میں ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرنا شروع کر دیں۔ چند نے جھوٹ کا سہارا لیا، کچھ نے دھوکہ دیا، اور کئی لوگوں نے دین کے اصولوں کو پس پشت ڈال دیا۔
آمنہ یہ سب دیکھ کر پریشان ہو گئی۔ اس نے رات کی تاریکی میں قرآن مجید کھولا اور دعا کی:
*”اے اللہ، ان اندھیروں میں مجھے حق کے راستے پر چلنے کی توفیق دے، اور مجھے روشنی کا ذریعہ بنا تاکہ یہ فتنے ختم ہو سکیں۔”*
ایک آیت نے اس کے دل کو جھنجھوڑ دیا:
*”وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا”*
(اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور فرقے فرقے نہ بنو۔)
آمنہ کو سمجھ آ گئی کہ فتنے کے دور میں سب سے ضروری کام اتحاد اور اللہ کی کتاب سے جڑ جانا ہے۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ قرآن کے پیغام کو گاؤں کے ہر شخص تک پہنچائے گی۔
آمنہ نے گاؤں کے بچوں کو جمع کیا اور انہیں قرآن کی وہ آیات سنائیں جن میں صبر، محبت، اور حق پر قائم رہنے کی تعلیم دی گئی تھی۔ آمنہ نے ہر آیت کو ایک کہانی کی صورت میں بیان کیا تاکہ بچے اور بڑے آسانی سے سمجھ سکیں۔ آمنہ کی باتیں لوگوں کے دلوں میں اترنے لگیں۔ وہ کہتی:
*”فتنے کے دور میں صرف قرآن مجید ہی ہماری رہنمائی کر سکتا ہے۔ ہمیں اپنے دل کو نرم کرنا ہوگا اور اللہ کے حکم پر چلنا ہوگا۔”*
ایک دن گاؤں کے بڑے بزرگوں نے فتنے کے مسئلے پر گفتگو کے لیے اجتماع بلایا۔ ہر شخص اپنی بات پر بضد تھا، اور فساد بڑھنے لگا۔ آمنہ نے کھڑے ہو کر کہا:
*”ہم سب اللہ کے بندے ہیں، اور قرآن ہمیں ایک دوسرے سے محبت اور اتحاد کا درس دیتا ہے۔ اگر ہم قرآن کو چھوڑ دیں گے تو یہ فتنے ہمارے ایمان کو کھا جائیں گے۔ آئیں، سب مل کر قرآن مجید کی طرف لوٹیں اور اپنی اصلاح کریں۔”*
آمنہ کی باتوں نے لوگوں کو جھنجھوڑ دیا۔ کئی نے اپنی غلطیاں مانی اور اللہ سے توبہ کی۔ گاؤں کے لوگ دوبارہ قرآن کی تعلیمات پر عمل کرنے لگے، اور گاؤں محبت اور سکون کا گہوارہ بن گیا۔
فتنے کے دور میں آمنہ نے قرآن کو اپنا رہنما بنایا اور لوگوں کو اس کی روشنی دکھائی۔ اس نے ثابت کیا کہ قرآن مجید ہی وہ چراغ ہے جو ہر فتنے کے اندھیروں کو روشنی میں بدل سکتا ہے۔ آمنہ کا یہ عمل رہتی دنیا تک ایک مثال بن گیا۔
**اختتام**