44

افسانہ جھکاؤ کا ہنر

تحریر شئیر کریں

افسانہ جھکاؤ کا ہنر

رات کا سناٹا گہرا ہو چکا تھا۔ آسمان پر تاروں کی چمک بھی مدھم پڑ رہی تھی۔ صوفیہ ایک کپ کافی ہاتھ میں لیےاپنی کھڑکی کے پاس آن بیٹھی، ، کافی کت تلخ گھونٹ حلق میں اتارتی وہ دور کسی روشنی کی تلاش میں تھی۔ یہ وہ رات تھی جب زندگی نے اسے اس دوراہے پہ لا کھڑا کیا تھا کہ محسوس ہو رہاتھا جیسے وقت رک سا گیا ہو۔

صوفیہ ہمیشہ زندگی کو ایک میدان جنگ سمجھتی تھی، جہاں جیتنے کے لیے ہر وقت ڈٹے رہنا پڑتا ہے۔ اصول اس کے لیے وہ دیواریں تھے جنہیں وہ کبھی گرنے نہیں دیتی تھی، چاہے تعلقات کی خوبصورت وادی اس دیوار کے پیچھے ہی کیوں نہ چھپی ہو۔ لیکن اس رات، کچھ بدلا تھا۔

کھڑکی سے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے اس کی نظر ایک جگمگاتے جہاز پر پڑی۔ وہ سوچنے لگی، “یہ کیسے اتنی بلندی پر اڑتا ہے؟ کیا یہ ہمیشہ سیدھی راہ پر رہتا ہے؟” اس کے ذہن میں ایک مضمون کی دھندلی یاد ابھری جو اس نے چند دن پہلے پڑھا تھا:
*”جہاز کبھی سیدھی اڑان نہیں بھرتے، بلکہ اپنی راہ میں تھوڑا جھکاؤ یا موڑ لیتے ہیں۔ یہی جھکاؤ ان کا راستہ مختصر اور منزل تک پہنچنے کا ذریعہ بناتا ہے۔”*

جھکاو کا ہنر

یہ خیال اس کے اندر کہیں گہرائی میں جاگ اٹھا۔ کیا زندگی بھی ایسا ہی نہیں؟ کیا ہمیشہ ضد اور سختی سے سیدھی راہ پر چلنا انسان کو تھکا نہیں دیتا؟

وہ اپنی بچپن کی ڈائری نکال لائی، جیسے اپنے سوال کا جواب تلاش کر رہی ہو۔ ایک پرانی تحریر نے اس کے دل کو جھنجھوڑ دیا:
*”زندگی کا خواب ہے کہ محبت سے بھرپور ہو، دل سکون میں رہے، اور میرے اپنے کبھی نظروں سے اوجھل نا ہوں۔”*

یہ جملہ پڑھ کر وہ خاموش ہو گئی۔ آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ یہ خواب کب اور کہاں گم ہو گیا؟ کیا وہ خود اپنی سختی کی دیواروں میں اسے قید کر چکی تھی؟

اگلی صبح، صوفیہ نے وہ پہلا قدم اٹھایا جو اس کے لیے سب سے زیادہ مشکل تھا۔ اس نے اپنی چھوٹی بہن سے معافی مانگی، جسے اس کی سخت باتوں نے ہمیشہ دُکھ پہنچایا تھا۔ پھر اپنے والدین کے سامنے جھکی، ان کی محبت کو قبول کیا، جو وہ اپنی ضد کے باعث ٹھکرا چکی تھی۔

وقت گزرتا گیا اور صوفیہ نے محسوس کیا کہ اس کا جھکنا صرف اس کے قریبی لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا رہا ہے بلکہ اس کے اندر بھی سکون اور نرمی کا ایک نیا جہان پیدا کر رہا ہے۔

ایک دن، وہ اپنی دوست حنا کے ساتھ بیٹھی تھی۔ باتوں باتوں میں حنا نے کہا، “صوفیہ، تم میں اتنا بدلاؤ کیسے آیا؟ تم تو کبھی کسی کے لیے جھکنے کو تیار نہیں ہوتی تھیں۔”

صوفیہ مسکرائی اور کھڑکی کے باہر دیکھتے ہوئے بولی، “حنا، زندگی ایک پرواز کی طرح ہے۔ ہم ہمیشہ سیدھی راہ پر نہیں چل سکتے۔ تھوڑا جھکاؤ، تھوڑی نرمی ہمیں نہ صرف راستہ آسانی سے طے کرنے دیتی ہے بلکہ ہماری منزل کو زیادہ خوبصورت بنا دیتی ہے۔”

آج، صوفیہ کی زندگی میں محبت اور سکون کے رنگ بھرے تھے۔ وہ جان چکی تھی کہ جھکاؤ کمزوری نہیں بلکہ ایک ایسا ہنر ہے جو زندگی کے سفر کو مختصر اور دلوں کو قریب تر بنا دیتا ہے۔ آسمان پر اڑتے جہاز کی روشنی دیکھتے ہوئے، وہ پہلی بار خود کو آزاد محسوس کر رہی تھی۔

افسانہ جھکاؤ کا ہنر

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں