اصل اُڑان افسانہ
رات کے سناٹے میں خاموشی چھائی ہوئی تھی، لیکن عائشہ کے دماغ میں خیالات کا ایک طوفان برپا تھا۔ وہ اپنے بیٹے احسان کی کمزوری پر سوچ رہی تھی۔ احسان پانی سے ڈرتا تھا، اس حد تک کہ نہانے سے بھی گھبراتا تھا۔ وہ ہر بار کسی بہانے پانی سے دور بھاگ جاتا۔ عائشہ کو شدید فکر لاحق تھی کہ اگر یہ خوف ختم نہ ہوا تو وہ زندگی کے ان طوفانوں کا کیسے مقابلہ کرے گا جن میں تیرنا نہایت ضروری ہوتا ہے۔
عائشہ نے عقاب کی تربیت کے بارے میں ایک کتاب میں پڑھ رکھا تھا کہ مادہ عقاب اپنے بچوں کو اڑنا سکھانے کے لیے آسمان کی بلندی سے گراتی ہے تاکہ وہ اپنے پروں کا استعمال سیکھ سکیں۔ یہ عمل سخت ضرور تھا، مگر موثر بھی۔ عائشہ نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے بیٹے کو اس کے خوف سے نکالنے کے لیے اپنی ہمت کو آزما کر دیکھے گی۔
عائشہ نے ایک ماں ہونے کے ناطے اپنے دل کو مضبوط کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ جانتی تھی کہ اس راستے پر چلنے کے لیے نہ صرف احسان کی آزمائش ہوگی بلکہ خود عائشہ کو بھی اپنے جذبات پر قابو پانا ہوگا۔ اس نے کئی راتیں تحقیق کرتے ہوئے گزاریں۔ اس نے ماہرین سے مشورہ لیا، ویڈیوز دیکھیں، اور اپنی زندگی کے تجربات کو یاد کیا۔
اگلی صبح عائشہ نے احسان کو پہلی بار تیراکی کے تالاب کے قریب لے جانے کا منصوبہ بنایا۔
جب احسان تالاب کے قریب پہنچا تو اس کی نظریں پانی کی گہرائی پر جم گئیں۔ خوف اس کی آنکھوں سے جھلک رہا تھا۔
“امی، میں یہاں نہیں جاؤں گا!” احسان نے ضد کرتے ہوئے کہا۔
عائشہ نے نرمی سے اس کا ہاتھ تھاما اور کہا، “بیٹا، ہر مشکل خوفزدہ لگتی ہے جب تک ہم اس کا سامنا نہ کریں۔”
عائشہ نے تالاب کے کنارے بیٹھ کر احسان کو پانی کی سطح پر ہاتھ ڈالنے کو کہا۔ پہلی بار احسان نے ہاتھ ہٹایا، مگر عائشہ نے اسے حوصلہ دیا:
“پانی تمہیں نقصان نہیں پہنچائے گا، یہ
پہلے دن عائشہ نے احسان کو تالاب کے کم گہرے حصے میں کھڑا کیا، جہاں پانی اس کے گھٹنوں تک تھا۔ احسان کا خوف واضح تھا، لیکن عائشہ کی محبت بھری نظروں نے اسے تھوڑا سا مطمئن کر دیا۔
“میں تمہارے ساتھ ہوں، بیٹا۔ تم گرنے نہیں دو گے۔”
پہلے چند دن احسان پانی میں صرف کھڑا رہا۔ عائشہ اسے چھینٹوں کے ساتھ کھیلنے دیتی تاکہ وہ پانی کو محسوس کرے اور اس سے مانوس ہو۔ جیسے جیسے دن گزرتے گئے، عائشہ نے احسان کو دھیرے دھیرے تیرنے کی مشق کرائی۔
ایک دن عائشہ نے دیکھا کہ احسان کا خوف بہت حد تک کم ہو چکا ہے، مگر اس میں خود اعتمادی کی کمی تھی۔ اس نے ایک فیصلہ کیا جو احسان کے لیے زندگی بدلنے والا تھا۔
عائشہ نے تالاب کے گہرے حصے میں جانے کا ارادہ کیا۔ وہ احسان کو اپنے ساتھ لے گئی اور اسے کنارے پر کھڑا کر دیا۔
“احسان، آج تمہیں اپنی طاقت پر بھروسہ کرنا ہوگا۔”
“نہیں، امی، میں ڈوب جاؤں گا!” احسان خوف سے چیخنے لگا۔
عائشہ نے محبت بھرے لہجے میں کہا، “میں تمہیں کبھی گرنے نہیں دوں گی۔ لیکن یاد رکھو، زندگی میں ہمیشہ کوئی ہمیں بچانے نہیں آتا، ہمیں خود اپنی مدد کرنی ہوتی ہے۔”
اس نے احسان کو پانی میں دھکیلا۔ جیسے ہی احسان پانی میں گرا، اس نے اپنے ہاتھ پاؤں مارنا شروع کر دیے۔ وہ چیخ رہا تھا، مگر ساتھ ہی تیرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ عائشہ نے اپنی جگہ سے ہلنے کی بجائے اسے حوصلہ دیا:
“کوشش کرو، احسان! تمہارے بازو مضبوط ہیں، تم کر سکتے ہو۔”
چند لمحے گزرے، اور اچانک احسان نے خود کو پانی کی سطح پر تیرتے ہوئے پایا۔ اس کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔ وہ پانی میں تیرتے ہوئے مسکرایا اور بولا، “امی، میں کر رہا ہوں!”
عائشہ نے تالیاں بجائیں اور اسے گلے لگا لیا جب وہ تالاب کے کنارے پر آیا۔ “دیکھا! تم نے اپنا خوف شکست دی۔”
چند ہفتوں میں احسان نہ صرف پانی میں مہارت حاصل کر چکا تھا بلکہ اس نے خود اعتمادی بھی سیکھ لی تھی۔ عائشہ نے محسوس کیا کہ صرف پانی کا خوف ختم کرنا مقصد نہیں تھا، بلکہ اسے زندگی کے چیلنجز سے لڑنے کا حوصلہ دینا تھا۔
ایک دن احسان نے اپنی ماں سے کہا، “امی، کیا میں بھی عقاب کی طرح اڑ سکتا ہوں؟”
عائشہ نے مسکرا کر جواب دیا، “ہاں، بیٹا! تمہارا دل جتنا مضبوط ہوگا، تم اتنا ہی اونچا اڑو گے۔”
عائشہ کے لیے یہ لمحہ صرف ایک کامیابی نہیں تھی بلکہ ایک یاد دہانی بھی تھی کہ بچوں کی تربیت صرف محبت اور تحفظ دینے تک محدود نہیں۔ انہیں زندگی کے طوفانوں میں اڑنے کے قابل بنانا بھی ماں کا ہی فرض ہے۔
جیسے عقاب اپنے بچوں کو اونچائی سے گرا کر اڑنے کے قابل بناتا ہے، ویسے ہی عائشہ نے اپنے بیٹے کو خوف کے گھیرے سے نکال کر خود مختاری کا سبق سکھایا۔
**یہی تو ماں کی اصل اڑان ہے!**