صبر کا صحرا
زندگی ہمیشہ سے آزمائشوں کا سلسلہ رہی ہے، لیکن بعض اوقات کچھ آزمائشیں انسان کو زمین سے اٹھا کر ایک بے کراں صحرا میں پھینک دیتی ہیں، جہاں کوئی سایہ، کوئی سہارا اور کوئی امید نہیں دکھائی دیتی۔ ایسی ہی کہانی ہے فاطمہ کی، جو اپنی زندگی کے صحرا میں صبر اور توکل کے زم زم کی تلاش میں نکلی۔
فاطمہ کی شادی کو آٹھ سال گزر چکے تھے، لیکن وقت کے ساتھ رشتے کی بنیادیں کمزور ہو چکی تھیں۔ شوہر کی بے توجہی اور مسلسل اختلافات نے رشتے کو ختم کرنے کی طرف دھکیل دیا۔ آخر کار، ایک دن وہ خبر آ گئی جس کا خوف اُس کے دل میں ہمیشہ رہتا تھا—طلاق۔
طلاق کے بعد معاشرے کا رویہ ایک الگ آزمائش بن گیا۔ جو لوگ پہلے محبت سے ملتے تھے، اب اُن کی نظریں ترس اور حقارت سے بھرپور تھیں۔ رشتہ داروں نے اُسے ناکام ٹھہرایا، اور دوستوں نے خاموشی سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔
فاطمہ کا دل ٹوٹ چکا تھا۔ اُسے یوں لگتا تھا کہ زندگی ختم ہو چکی ہے۔ ایک رات وہ اپنے کمرے میں بیٹھی دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتی ہے اور بے بسی سے کہتی ہے:
*”یا اللہ! کیا میرا وجود اب بے مقصد ہو چکا ہے؟ کیا میری کہانی یہیں ختم ہو گئی؟”*
اسی رات، فاطمہ کے دل میں ایک عجیب سی روشنی جاگتی ہے۔ وہ قرآن کھولتی ہے اور سورہ ابراہیم کی یہ آیت پڑھتی ہے:
*”اور اپنے رب کی نعمت کو یاد کرو، تاکہ تم شکر کرو۔”*
یہ الفاظ اُس کے دل میں اتر جاتے ہیں، جیسے کسی نے اُس کی سوئی ہوئی روح کو جگا دیا ہو۔
اگلے دن، فاطمہ نے تاریخ کے صفحات کو کھنگالنا شروع کیا۔ اُس نے سیدہ ہاجرہؑ کا واقعہ پڑھا۔ ایک عورت، جو اپنے شوہر اور دودھ پیتے بچے کے ساتھ ایک ویران صحرا میں رہ گئی، بغیر کسی سہارے کے۔ لیکن اُس کا ایمان اتنا مضبوط تھا کہ اُس نے کبھی شکایت نہیں کی، بلکہ اللہ کی رضا میں راضی ہو کر اپنی ذمہ داری نبھائی۔
یہ واقعہ فاطمہ کے لیے مشعلِ راہ بن گیا۔ اُس نے سوچا، “اگر ہاجرہؑ صحرا کی تنہائی میں توکل کے ساتھ زندہ رہ سکتی ہیں، تو میں بھی اپنی آزمائشوں کا مقابلہ کر سکتی ہوں۔”
فاطمہ نے اپنی زندگی کو بدلنے کا عزم کر لیا۔ اُس نے اپنی چھوٹی سی جمع پونجی سے سلائی مشین خریدی اور گھر بیٹھے سلائی کا کام شروع کیا۔ ابتدائی دنوں میں حالات مشکل تھے۔ گاہک کم تھے، اور جو تھے، وہ کم قیمت پر کام کروانا چاہتے تھے۔ لیکن فاطمہ نے ہمت نہیں ہاری۔ اُس کے دل میں ہاجرہؑ کے سعی کے پہاڑ گونج رہے تھے:
*”حرکت میں برکت ہے۔”*
ہر روز فاطمہ اپنے کمرے میں کام کرتی، دعا کرتی، اور اللہ پر بھروسا رکھتی۔ اُس نے قرآن کی آیات کو اپنے حوصلے کا ذریعہ بنایا۔
مہینے بیتتے گئے، اور فاطمہ کی محنت رنگ لانے لگی۔ اُس کی سلائی کا کام محلے میں مشہور ہو گیا۔ لوگ اُس کے کام کی تعریف کرتے اور دوسروں کو بھی سفارش کرتے۔ فاطمہ نے اپنی آمدنی سے نہ صرف اپنے گھر کے اخراجات پورے کیے بلکہ اپنے بیٹے کی تعلیم کے لیے بھی رقم جمع کی۔
پانچ سال گزر چکے تھے۔ فاطمہ کی محنت نے اُسے ایک خودمختار عورت بنا دیا تھا۔ اب وہ محض ایک سلائی کرنے والی عورت نہیں، بلکہ ایک کامیاب کاروباری خاتون تھی۔ اُس نے اپنی چھوٹی سی دکان کھول لی تھی جہاں نہ صرف اُس کے بنائے ہوئے کپڑے بکتے، بلکہ دیگر خواتین کو بھی روزگار مل رہا تھا۔
فاطمہ کی کہانی محلے کی خواتین کے لیے امید کی کرن بن گئی۔ جو عورتیں خود کو بے بس سمجھتی تھیں، اُن کے لیے فاطمہ ایک زندہ مثال تھی۔ وہ اُن سے کہتی:
*”اللہ کسی کو ضائع نہیں کرتا، خاص طور پر اُنہیں جو اُس پر بھروسا کرتے ہیں اور اپنے حالات بدلنے کی کوشش کرتے ہیں۔”*
فاطمہ کی کامیابی محض مالی یا سماجی نہیں تھی، بلکہ روحانی بھی تھی۔ اُس کا اللہ پر ایمان پہلے سے زیادہ مضبوط ہو چکا تھا۔ اُس نے اپنی زندگی میں ہاجرہؑ کے صبر اور توکل کو نافذ کر کے دیکھا تھا کہ کیسے اللہ کے بھروسے سے سب کچھ ممکن ہو جاتا ہے۔
فاطمہ کے دل میں ہمیشہ یہ دعا رہتی
*”یا اللہ! مجھے سیدہ ہاجرہؑ کے قدموں پر چلنے کی توفیق عطا فرما اور مجھے اُن کے صبر اور توکل کا ایک حصہ بھی نصیب کر دے۔”*
فاطمہ کی کہانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ مشکلات کے صحرا میں بھی اگر انسان اللہ پر توکل کرے، صبر کرے، اور ہمت نہ ہارے، تو اللہ اُسے ضائع نہیں کرتا۔ ہاجرہؑ کی طرح، ہم بھی اپنے صحرا میں زم زم تلاش کر سکتے ہیں—بس شرط یہ ہے کہ ہم حرکت کریں، دعا کریں، اور اللہ کے بھروسے پر چلتے رہیں۔
یہ کہانی اُن تمام عورتوں کے لیے ہے جو اپنی آزمائشوں سے گھبرا کر بیٹھ جاتی ہیں۔ یاد رکھیں، اللہ نے آپ کو وہ طاقت دی ہے جو بڑے سے بڑے طوفان کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ فاطمہ کی طرح، آپ بھی اپنی کہانی کو ایک مثال بنا سکتی ہیں۔
صبر کا صحا