65

صیدنایا کا قیدی

تحریر شئیر کریں

صیدنایا کا قیدی

صیدنایا کی جیل، جسے زمین پر جہنم کہنا غلط نہ ہوگا، وہاں چار سال گزارنے والے دیر الزور کے رہائشی “نوری حمود السرای” کی داستان دل دہلا دینے والی ہے۔ الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے اپنی قید کی اذیت ناک زندگی کے چند پہلوؤں کو بیان کیا جو ہر سننے والے کو لرزا کر رکھ دیتے ہیں۔

“یہ میری بیرک ہے،” نوری نے جیل کے ٹوٹے پھوٹے کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، “مجھے 6 جولائی 2021ء کو یہاں لایا گیا تھا، اور رواں ماہ 8 دسمبر کو اللہ کے فضل و کرم سے رہائی نصیب ہوئی۔ ورنہ مجھے تو 20 سال قید کی سزا سنائی جا چکی تھی۔”

نوری نے بتایا کہ اس قید خانے میں پانی ہر چار دن بعد ملتا تھا۔ وہ اور ان کے ساتھی اس پانی کو پلاسٹک کی تھیلی میں محفوظ کرتے تاکہ کچھ دن تک کام چل سکے۔ “ہم اکثر صلوٰۃ الاستسقاء پڑھا کرتے تھے تاکہ بارش ہو، اور ہماری بیرک کے دروازے سے بارش کا پانی اندر داخل ہو۔ جب بارش کا پانی اندر آتا تو ہم اسے زمین پر جھک کر پیتے، پھر اپنی چادریں اس میں بھگو کر نچوڑ لیتے تاکہ پیاس بجھا سکیں۔”

کھانے کا حال بھی کچھ مختلف نہ تھا۔ “ناشتے کے نام پر ایک معمولی مقدار میں دودھ لایا جاتا تھا جو 20 قیدیوں میں تقسیم ہوتا، اور ہر ایک کے حصے میں آدھا چمچ آتا۔ کھانے کے لیے پانچ دن کے بعد بمشکل چند ٹماٹر لائے جاتے۔ وہ بھی 20 افراد کے درمیان تقسیم ہوتے، اور ہر ایک کے حصے میں ایک چھوٹا سا ٹکڑا آتا۔” نوری کے مطابق، اس حال میں وہ ٹماٹر کا وہ چھوٹا سا ٹکڑا بھی کسی نعمت سے کم نہیں لگتا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ جیل میں قیدیوں کو باہر لے جایا جاتا تو انہیں جھکا کر چلنے پر مجبور کیا جاتا۔ اگر کسی کا سر معمولی سا بھی اٹھ جاتا تو فوراً بدترین تشدد کیا جاتا۔ “میرے بدن کا کوئی حصہ ایسا نہیں تھا جس پر تشدد کے نشان نہ ہوں۔” نوری نے کہا، “لوگ ابو غریب اور گوانتانوبے کی بات کرتے ہیں، لیکن اس جگہ کی داستانیں کہیں زیادہ دردناک ہیں۔”

نوری نے اپنی حالت بیان کرتے ہوئے کہا، “میں ہر وقت روٹی کے بارے میں سوچتا تھا، لیکن اللہ کا شکر ہے کہ اس نے صبر کی توفیق بخشی۔” وہ اکثر رات کے وقت باہر سے آنے والی عجیب و غریب آوازوں سے خوفزدہ ہو جاتے تھے۔ لیکن ایک دن، ایسی ہی آوازوں نے ان کی زندگی بدل دی۔

“ہفتے کی رات دو بجے گولیوں کی آوازیں سنائی دیں۔ ہم سمجھے کہ شاید ہمیں مارنے کا وقت آ گیا ہے۔ لیکن پھر معلوم ہوا کہ انقلابیوں نے جیل پر قبضہ کر لیا ہے، اور درندے فرار ہو چکے ہیں۔” نوری نے جذباتی لہجے میں کہا، “ہم نے دروازے کے سوراخ سے باہر دیکھا تو لوگ باہر نکل رہے تھے۔ پہلے ہمیں یہی لگا کہ شاید انہیں قتل کے لیے لے جایا جا رہا ہے۔ لیکن جلد ہی اللہ کے فضل سے انقلابی ہماری بیرک تک پہنچے اور دروازہ توڑ دیا۔”

انہوں نے کہا کہ جب دروازہ کھلا تو قیدیوں نے بلند آواز میں تکبیر کے نعرے لگائے۔ انقلابیوں کی وجہ سے انہیں نئی زندگی ملی۔ نوری نے اپنے بیان کے اختتام پر کہا، “اللہ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔”

یہ داستان اس بات کی گواہی ہے کہ اللہ جب چاہے، مصیبتوں سے رہائی عطا کر دیتا ہے، اور اس کا فضل کبھی کسی قیدی کی امیدوں کو مایوس نہیں کرتا۔

صیدنایا کا قیدی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں