38

پہلی اڑان 10 ناول

تحریر شئیر کریں

پہلی اڑان 10 ناول

روبینہ شاہین

برف باری کی شدت ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بڑھتی جا رہی تھی۔ ندا کی گاڑی خراب ہو چکی تھی، اور یوں اسے گھر پر رہ کر چھٹی کرنا پڑی۔ صبح اٹھتے ہی اس نے دن کے لیے منصوبہ بنایا کہ وقت ضائع کرنے کے بجائے اپنے پورشن کی تفصیلی صفائی کرے گی۔

سب سے پہلے وہ اپنے کمرے کی صفائی میں مصروف ہو گئی۔ الماری کے دروازے کھولتے ہی اسے کچھ پرانی یادیں تازہ ہو گئیں۔ ایک ڈائری کے صفحات پلٹتے ہوئے وہ رک گئی۔ یہ ڈائری اس کے کالج کے دنوں کی تھی، جس میں نہ صرف اس کے خواب بلکہ وہ جذبے بھی محفوظ تھے جنہیں زندگی کی بھاگ دوڑ میں کہیں پیچھے چھوڑ دیا گیا تھا۔ ڈائری کو دوبارہ ترتیب دے کر اس نے الماری بند کی اور باقی سامان سمیٹنا شروع کر دیا۔

کمرے کے بعد اس نے واش روم، کچن، اور لاونج کی صفائی کی۔ کچن صاف کرتے ہوئے اس کے ذہن میں آیا کہ یہ وہی جگہ ہے جہاں وہ کبھی کبھی کھانے کے دوران اپنے والدین کی یادوں میں کھو جاتی تھی۔ ان کی باتیں، نصیحتیں، اور دعائیں اس کے دل کو سکون دیتی تھیں، لیکن آج وہ یادیں اداسی کے ساتھ خوشبو کی طرح بکھر گئیں۔ صفائی مکمل کرتے کرتے اسے احساس ہوا کہ یہ گھر اس کی دنیا کا وہ گوشہ ہے، جہاں سکون اور تنہائی ایک ساتھ رہتے ہیں۔

صفائی سے فارغ ہو کر دوپہر کا کھانا بنایا۔ کھانے کے دوران برف باری رک چکی تھی۔ ندا نے سوچا کہ گاڑی ٹھیک کروانی ضروری ہے، ورنہ اگلے دن کے کام متاثر ہوں گے۔ اس نے فوراً ثانیہ کو کال کی، جو ہمیشہ اس کے مسائل حل کرنے میں مدد کرتی تھی۔ ثانیہ نے مکینک کا بندوبست کر دیا، اور شام پانچ بجے تک گاڑی ٹھیک ہو گئی۔

گاڑی ٹھیک کروانے کے بعد ندا نے فیصلہ کیا کہ کل چونکہ اتوار ہے، کیوں نہ آج ہی گروسری کر لی جائے۔ گروسری کے لیے نکلتے ہوئے اس نے راستے میں دیکھا کہ بھاری مشینری برف ہٹانے میں مصروف ہے۔ اس دوران اس کی نظر ایک لڑکی پر پڑی جو بڑی کرین چلا رہی تھی۔ یہ منظر دیکھ کر ندا کے دل میں حیرت اور خوشی کا امتزاج پیدا ہوا۔ اسے یاد آیا کہ لاہور میں بھی اس نے ایک لڑکی کو رکشہ چلاتے دیکھا تھا۔ وہ یادیں جیسے اس کے دل میں چھپے لاہوری گلی کوچوں کو زندہ کر گئیں، اور اسے اپنے والدین کی یاد شدت سے محسوس ہوئی۔

گروسری مکمل کرنے کے بعد وہ گھر واپس آئی۔ دن بھر کی مصروفیت کے بعد ندا نے خود کو تھکاوٹ سے چُور پایا، لیکن ہفتے کی رات ثانیہ کی جانب سے ملنے والی دعوت نے اس کے موڈ کو خوشگوار بنا دیا۔ ثانیہ کے اصرار کو ندا انکار نہیں کر سکتی تھی، یوں اس نے فیصلہ کیا کہ سنڈے کا دن ثانیہ کے ساتھ گزارے گی۔

سنڈے کو ندا ثانیہ کے گھر پہنچی، جو ایک خوشحال علاقے میں واقع تھا۔ گھر میں داخل ہوتے ہی ایک گرم جوش استقبال اس کا منتظر تھا۔ ثانیہ کی والدہ، جو ایک کامیاب ڈاکٹر تھیں، ندا سے نہایت محبت سے ملیں۔ ثانیہ کی دو چھوٹی بہنیں بھی بہت دوستانہ مزاج کی تھیں، جن میں سے ایک کالج میں زیرِ تعلیم تھی اور دوسری اسکول کی طالبہ۔ یہ خاندان محبت، عزت، اور خلوص کا عکس تھا، اور ندا نے خود کو ان کے درمیان بہت آرام دہ محسوس کیا۔

کھانے میں چائنیز ڈشز، فش، اور سوپ کا انتظام تھا، جسے سب نے بہت پسند کیا۔ ثانیہ اور ندا نے کھانے کے دوران زندگی کے کئی پہلوؤں پر بات چیت کی۔ ثانیہ نے ندا سے کہا، “تم ہمیشہ بہت مضبوط نظر آتی ہو، لیکن کبھی کبھار اپنے لیے بھی وقت نکالو۔” ندا نے اس بات پر مسکراتے ہوئے سر ہلایا، لیکن اس کے دل میں یہ بات گہرائی تک اتر گئی۔

رات کو گھر آ کر ندا نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس کی زندگی میں ایسی مخلص دوستیں موجود ہیں۔ اس نے والدین سے فون پر بات کی اور اپنے معمول کے مطابق جرنلنگ کرنے بیٹھ گئی۔ اگلے ہفتے کے لیے دو تین سالن بنا کر فریز کیے تاکہ وقت کی بچت ہو۔ پھر وہ قرآن مجید کی تلاوت کرنے لگی۔

رات کا وقت تھا، اور برف باری دوبارہ شروع ہو چکی تھی۔ ندا نے اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر دیکھا۔ سفید برف کی چادر ہر چیز پر پھیلی ہوئی تھی، اور چاندنی رات کا منظر کسی خواب کی طرح لگ رہا تھا۔ اس نے کافی کا کپ بنایا اور جرنلنگ کرنے لگی۔

آج وہ ایک نئے عزم کے ساتھ کچھ کرنے کا فیصلہ کر چکی تھی۔ اسے احساس ہوا کہ اس کی انگلش اتنی بہتر ہو چکی ہے کہ وہ ایک اچھے معیار کے جریدے میں آرٹیکلز لکھ سکتی ہے۔ پہلا مضمون جو اس نے سوچا، اس کا موضوع تھا:

**The Changing Dynamics of Syria: A Global Perspective**
Syria has witnessed a dramatic shift in its socio-political landscape over the past decade. From civil unrest to international interventions, the effects of its turmoil have spread far and wide. The global community remains divided—some advocating for diplomacy, others pushing for military action. In this interconnected world, Syria’s struggle is a stark reminder of how humanity’s collective responsibility for peace can shape our future.

ندا نے مضمون کا ابتدائی ڈرافٹ مکمل کیا، اور اس کے ساتھ ہی خود میں ایک نیا عزم محسوس کیا۔ زندگی کے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے وہ پہلے سے زیادہ پرعزم اور تیار تھی۔
ندا نے اپنی ڈائری کھولی اورجرنلنگ شروع کی:
“آج دل بہت مطمئن ہے۔ اللہ کا جتنا شکر ادا کروں، کم ہے۔ ثانیہ اور اس کی فیملی کو دیکھ کر احساس ہوا کہ خلوص اور محبت کی دنیا ابھی باقی ہے۔ اس کی امی، جو ایک ڈاکٹر ہونے کے باوجود بے حد عاجز ہیں، اور اس کی بہنوں کا معصومانہ رویہ، سب نے دل کو چھو لیا۔ شاید ایسے ہی لوگ دنیا کو بہتر بنانے میں کردار ادا کرتے ہیں۔”

ندا نے اپنی فیملی کے بارے میں بھی لکھا:
“میری دعائیں ہمیشہ میرے والدین کے لیے ہیں۔ وہ میرے لیے طاقت کا ذریعہ تھے اور ہیں۔ ان کی نصیحتیں اور دعائیں میرے ساتھ ہیں، اور شاید انہی کی بدولت میں ان حالات میں بھی اپنے قدم جمائے کھڑی ہوں۔ اللہ میری فیملی کو ہمیشہ خوش رکھے۔”

پھر اس نے قرآن کی وہ آیت لکھی جو ہمیشہ اسے مضبوطی کا درس دیتی تھی:
وَأَنتُمُ ٱلۡأَعۡلَوۡنَ إِن كُنتُم مُّؤۡمِنِینَ
“اور تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔” (سورہ آل عمران: 139)

ندا نے اس آیت پر غور کیا اور مومنوں کی موجودہ حالت پر لکھا:
“یہ آیت ہمیں ہمیشہ یاد دلاتی ہے کہ ایمان کی طاقت ہمیں بلند کرتی ہے۔ مگر آج ہم مومن کہاں ہیں؟ ہماری حالت زار ہماری کمزوریوں کا ثبوت ہے۔ ہم نے اپنی بنیادوں کو بھلا دیا، اپنے رب سے دور ہو گئے، اور اپنے کردار کو کمزور کر دیا۔ اگر ہم دوبارہ قرآن کی طرف لوٹ آئیں، اللہ سے تعلق مضبوط کریں، تو یہی دنیا ہماری کامیابی کا مرکز بن سکتی ہے۔”

ندا نے اللہ سے دعا کی، ڈائری بند کی، اور اپنی روزانہ کی تلاوت کے لیے قرآن کھولا۔ اس کے دل میں یقین تھا کہ یہ سب کچھ صرف اللہ کی مدد سے ممکن ہے، اور وہ اپنی زندگی کے ہر لمحے میں اس کی رحمت کی طلبگار رہے گی۔

جاری ہے۔۔ .

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں