34

افسانہ”بازگشت”

تحریر شئیر کریں

افسانہ”بازگشت”

یہ ایک چھوٹے سے گاؤں کی کہانی ہے، جو نہایت پُرسکون اور قدرتی حسن سے آراستہ تھا۔ یہاں کے لوگ کبھی بھی شہر کی زندگی کی کشمکش سے نہیں آشنا تھے، اور نہ ہی انہیں کبھی یہ خیال آیا تھا کہ ان کی روزمرہ زندگی کسی دن اس کشمکش کا حصہ بنے گی۔ لیکن دنیا بدلتی ہے اور بدلتے ہوئے حالات میں سب کو اپنی بقا کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا پڑتا ہے۔

گاؤں کا ایک نوجوان، عمیر، جسے شہر کے شور شرابے میں بھی اپنی محنت کا لوہا منوانے کا شوق تھا، اپنے گاؤں کو چھوڑ کر شہر منتقل ہو گیا تھا۔ شہر میں آ کر اس نے کئی سال محنت کی، لیکن مہنگائی اور روزگار کی کمی نے اس کی زندگی کو اجیرن بنا دیا تھا۔ وہ دن رات کام کرتا، لیکن ہر ماہ کے آخر میں پیسہ ختم ہو جاتا، اور گزر بسر کی مشکلات بڑھ جاتی۔

ایک دن، وہ پریشانی کی حالت میں اپنے گاؤں واپس آ گیا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ کیا گاؤں میں واپس آ کر اپنی زندگی کو دوبارہ بہتر بنایا جا سکتا ہے؟ لیکن شہر کے ماحول میں رہ کر اسے یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ گاؤں کی سادگی اور فطری وسائل میں کچھ خاص بات ہے۔ وہاں کی زمین، جہاں کے لوگ محنت کرتے تھے اور اپنی ضروریات کو خود پورا کرتے تھے، آج کل کی زندگی کے مقابلے میں زیادہ حقیقت پسندانہ لگنے لگی۔

گاؤں میں واپس آ کر عمیر نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے گاؤں کی زمین کو دوبارہ زندہ کرے گا۔ اس نے اپنے والدین سے مشورہ کیا اور دونوں نے مل کر زمین پر سبزیوں کی کاشت شروع کی اور مرغیاں پالنے کا کام بھی شروع کیا۔ عمیر کا مقصد صرف اپنے خاندان کی مالی حالت کو بہتر بنانا نہیں تھا، بلکہ وہ چاہتا تھا کہ گاؤں کے دوسرے لوگ بھی اس کی مدد سے آگے بڑھیں اور شہر جانے کی بجائے اپنی ضروریات خود پوری کریں۔

عمیر نے گاؤں کے باقی لوگوں کو بھی اس کام کی ترغیب دی۔ اس نے ان سے کہا، “اگر ہم سب اپنے اپنے گھروں میں سبزیاں اُگائیں اور مرغیاں پالیں، تو ہمیں شہر کی منڈیوں میں جا کر قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔” اس نے گاؤں کے بزرگوں سے درخواست کی کہ وہ اس سلسلے میں نوجوانوں کی رہنمائی کریں، اور شہر کے لوگوں سے یہ گزارش کی کہ وہ گاؤں والوں کی مدد کریں۔

شہر سے کچھ لوگ عمیر کی آواز سن کر گاؤں آ گئے اور گاؤں والوں کی مدد کرنے لگے۔ کسی نے مرغیوں کے لیے پنجرے بنوا دیے، کسی نے سبزیوں کے بیج بھجوا دیے، اور کسی نے کھیتی باڑی کے اوزار فراہم کیے۔ یوں گاؤں میں ایک نیا انقلاب آیا، جہاں ہر شخص اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔

گاؤں کی فصلیں بڑھی، مرغیاں انڈے دینے لگیں، اور دیہاتیوں نے شہروں میں جانے کی بجائے اپنے گھروں میں ہی رزق حاصل کرنا شروع کر دیا۔ شہر کی منڈیوں میں اجناس کی قیمتیں کم ہونے لگیں، کیونکہ اب گاؤں والے خود پیداوار کرنے لگے تھے، اور کسی کو ان اشیاء کے لیے شہر کا رخ نہیں کرنا پڑا۔

عمیر نے اس تبدیلی کو بہت قریب سے دیکھا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس سادگی اور محنت میں ہی اس کے گاؤں کی ترقی کا راز ہے۔ اس نے شہر والوں سے درخواست کی کہ وہ گاؤں والوں کی مدد کرتے رہیں تاکہ یہ سلسلہ جاری رہے اور مہنگائی کا شکار نہ ہو۔

“یہ ہمارا ملک ہے، اور ہمیں اس کی قیمتوں کو اعتدال پر لانے کے لیے مل کر کام کرنا ہو گا،” عمیر نے ایک دن اپنے گاؤں کے لوگوں سے کہا، “اگر ہم سب اپنے وسائل کو بہتر طور پر استعمال کریں اور ایک دوسرے کی مدد کریں، تو ہم نہ صرف اپنی زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں، بلکہ پورے ملک کی معاشی حالت بھی درست کر سکتے ہیں۔”

گاؤں والوں نے عمیر کی باتوں کو دل سے سنا اور وہ اس کی رہنمائی پر عمل کرنے لگے۔ آہستہ آہستہ پورا گاؤں خود کفیل ہو گیا، اور وہ شہر کی مہنگائی اور مشکلات سے آزاد ہو گئے۔ گاؤں کی حالت بہت بہتر ہو گئی، اور عمیر نے اپنے مقصد کو حاصل کیا: نہ صرف اپنے گاؤں بلکہ پورے پاکستان کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے لیے ایک نیا راستہ دکھایا۔

یہ کہانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ہمیں اپنے آبا اجداد کے طریقوں پر واپس جانے کی ضرورت ہے، جہاں ہم اپنے وسائل کو خود استعمال کرتے تھے۔ جب دیہات اپنے وسائل کا صحیح استعمال کریں گے، تو شہر کی مہنگائی خود بخود کم ہو جائے گی، اور سب کا فائدہ ہو گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں