پہلی اڑان 12 ناول 55

پہلی اڑان 13ناول

تحریر شئیر کریں

پہلی اڑان ناول

قسط 13:
ناول نگار:روبینہ شاہین

ندا کمرے کی کھڑکی کے قریب بیٹھی تھی۔ باہر برف کے گرتے گالے زمین کو سفید چادر اوڑھا رہے تھے۔ ٹورنٹو کی یخ بستہ ہوا کھڑکی کے شیشے سے ٹکرا رہی تھی، اور کمرے میں سکوت تھا، مگر اس سکون کے پردے کے پیچھے خوف کے سائے منڈلا رہے تھے۔ ہاتھ میں کافی کا کپ ہونے کے باوجود ندا کے دل میں ٹھنڈے پسینے کی لہریں دوڑ رہی تھیں۔ پچھلی رات کا چوری کا واقعہ اس کے ذہن پر ایک خوفناک خواب کی طرح چھایا ہوا تھا، اور وہ اس کے کمرے کی ہر آہٹ کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہی تھی۔

۔…..

ندا چوری کے واقعے کے بعد شدید عدم تحفظ کا شکار ہو چکی تھی۔ اکیلے رہنے کا خوف ہر لمحے اس کا پیچھا کرتا تھا۔ اپنے اپارٹمنٹ میں تنہا راتیں گزارنا اب اس کے لیے ناممکن ہو گیا تھا۔ ہر آواز، ہر سائے نے اسے ہراساں کر رکھا تھا۔

***
ندا نے حراء سے اپنے دل کی بات کی، “میں یہاں اکیلے نہیں رہ سکتی۔ ہر رات ایسا لگتا ہے کہ کوئی میرے دروازے پر کھڑا ہے یا کوئی کھڑکی سے جھانک رہا ہے۔”

حراء نے سنجیدگی سے کہا، “ندا، میرے خیال میں تمہیں یونیورسٹی ہوسٹل میں شفٹ ہو جانا چاہیے۔ وہاں تمہیں سیکیورٹی بھی ملے گی اور دوسروں کا ساتھ بھی۔”

ندا کو یہ مشورہ پسند آیا، مگر دل میں تذبذب تھا۔ اپارٹمنٹ چھوڑنا آسان نہیں تھا، کیونکہ یہ اس کی آزادی اور سکون کی جگہ تھی۔ مگر اس نے فیصلہ کیا کہ اپنی ذہنی سکون کے لیے اسے یہ قدم اٹھانا ہوگا۔

***
چند دن بعد، ندا ہوسٹل میں شفٹ ہو گئی۔ وارڈن نے اس کا استقبال کیا اور اسے ایک کمرہ الاٹ کیا، جہاں اس کی روم میٹ مہرین پہلے سے موجود تھی۔ مہرین خوش مزاج اور پرجوش لڑکی تھی۔ “ندا، تمہیں یہاں بہت مزہ آئے گا۔ ہم مل کر رہتے ہیں، اور یہاں کا ماحول بہت دوستانہ ہے،” مہرین نے ندا کو تسلی دی۔

ہوسٹل کی پہلی رات ندا کے لیے عجیب تھی۔ وہ اپنی پرانی زندگی اور اکیلے رہنے کی آزادی کو یاد کر رہی تھی، لیکن مہرین نے اس سے بہت باتیں کیں اور اس کا دل بہلا دیا۔

***
اگلے دن، ہوسٹل کی لڑکیاں ندا کو ناشتے پر اپنے ساتھ لے گئیں۔ وہ سب بہت زندہ دل اور مددگار تھیں۔ انہوں نے ندا کو اپنے قصے سنائے اور یونیورسٹی کے حوالے سے مفید مشورے دیے۔ ندا کو محسوس ہوا کہ وہ ایک نئی دنیا میں آ گئی ہے، جہاں اسے نئے دوست اور نئی یادیں مل سکتی ہیں۔

***
یونیورسٹی میں ندا نے اپنے پروجیکٹ پر توجہ مرکوز کی۔ ان کا گروپ مصنوعی ذہانت کے ایک ماڈل پر کام کر رہا تھا، جو سماجی مسائل کے حل کے لیے ڈیزائن کیا جا رہا تھا۔ گروپ میٹنگ کے دوران ریان نے کہا، “ہمیں اپنے ماڈل کو مزید مؤثر بنانے کے لیے نئے طریقے اپنانے ہوں گے۔”

ندا نے پرجوش لہجے میں کہا، “میں نے ایک تحقیق دیکھی تھی، جس میں ہائبرڈ ماڈلز کا ذکر تھا۔ شاید ہمیں اس پہلو پر غور کرنا چاہیے۔”

ریان اور گروپ کے دوسرے اراکین نے اس کی بات کو سراہا، اور پروفیسر لینچ نے بھی ان کی پیش رفت کی تعریف کی۔ “ندا، تمہارے خیالات ہمیشہ عملی ہوتے ہیں۔ مجھے تمہارے گروپ سے بہت امیدیں ہیں،” پروفیسر نے کہا۔

***
پراجیکٹ پر کامیابی کے بعد ندا اور حراء کافی پینے کینٹین گئیں۔ وہاں حراء نے پوچھا، “ندا، ہوسٹل میں کیسا لگ رہا ہے؟”

ندا نے مسکراتے ہوئے کہا، “پہلے تو عجیب لگ رہا تھا، مگر اب مجھے اچھا لگ رہا ہے۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ یہاں سب ایک دوسرے کے ساتھ بہت تعاون کرتے ہیں۔”

حراء نے خوش ہو کر کہا، “یہی تو ہوسٹل کی خاص بات ہے۔”

***
رات کو جب ندا ہوسٹل کے کمرے میں بیٹھی تو اسے اپنی ماں کی یاد آئی۔ وہ ہمیشہ کہتی تھیں، “زندگی میں جو بھی مشکل آئے، اللہ سے مدد مانگو، وہی بہترین راستہ دکھائے گا۔” ندا نے قرآن کھولا اور سورۃ الانفال کی یہ آیت پڑھی:

**”وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِندِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ”**
(اور مدد تو صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے، بے شک اللہ زبردست، حکمت والا ہے۔)

یہ آیت اس کے دل کو سکون دے گئی۔ اس نے دعا کی کہ اللہ اسے ہر خوف سے نکالے اور اس کے راستے کو آسان کرے۔

ندا نے اپنی جرنلنگ کرتے ہوئے لکھا، “زندگی میں آزمائشیں آتی ہیں، لیکن یہ وہ لمحے ہوتے ہیں جو ہمیں مضبوط بناتے ہیں۔ ہوسٹل میں شفٹ ہو کر میں نے خود کو خوف سے آزاد کیا ہے اور نئی شروعات کی ہیں۔”

ندا نے نئے دن کے لیے منصوبے بنائے اور دل میں ایک نئی امید جگائی کہ آنے والے دن اس کے لیے خوشگوار ہوں گے۔
جاری ہے…

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں