30

پہلی اڑان 14ناول

تحریر شئیر کریں

پہلی اڑان 14ناول

ناول نگار:روبینہ شاہین

۔۔۔۔۔۔۔

دسمبر کا مہینہ شروع ہوتے ہی ٹورنٹو کی فضاء میں ایک نیا رنگ آ گیا تھا۔ برف باری کا موسم جیسے ہی آیا، شہر کی گلیوں میں جادو سا پھیل گیا۔ ہر طرف برف کے نرم گالے گرتے ہوئے زمین کو سفید چادر کی طرح ڈھانپ رہے تھے۔ لوگوں کے چہرے پر ٹھنڈک کی سرسراہٹ تھی، مگر ان کی آنکھوں میں ایک عجیب سا چمک تھا، جیسے برف کی روشنی میں خوابوں کا آغاز ہو رہا ہو۔

یونیورسٹی کی کیمپس میں رش تھا، جیسے ہر طالب علم اپنی آخری کلاسز کی تیاری کر رہا ہو اور چھٹیوں کے شروع ہونے کا شدت سے انتظار کر رہا ہو۔ ندا بھی اپنے کلاس کے ساتھیوں کے ساتھ مصروف تھی، اور موسم کی خوشبو کے ساتھ ہی ان کے دل میں ایک نئی امید جاگ اٹھی تھی۔

“کتنی عجیب بات ہے،” ندا نے اپنی دوست حراء سے کہا، “دسمبر کی سرد ہوائیں اور یہ برف باری، جو ہر جگہ روشنی پھیلانے کی طرح محسوس ہو رہی ہے۔”

حراء مسکرا کر بولی، “یہ موسم تو خاص طور پر کافی کے لیے ہے، ندا! تمہیں پتہ ہے نا کہ دسمبر میں کافی کی کیا اہمیت ہوتی ہے؟”

ندا نے چائے کے بجائے کافی کا کپ ہاتھ میں لیا اور اس کی گرمائش کا لطف اٹھایا۔ “ہاں، کافی کی حقیقت سے آج پورا پورا واقف ہو رہی ہوں،” ندا نے ہنستے ہوئے جواب دیا، “کافی کا ہر کپ ایک کہانی سناتا ہے، اور اس سرد موسم میں، یہ ہمیں گرمی اور سکون دونوں دیتی ہے۔”

***

یونیورسٹی کی چھٹیاں قریب آ رہی تھیں، اور ندا اور اس کے کلاس کے ساتھیوں نے چھٹیوں کے آغاز میں ایک ٹرپ پلان کیا۔ یہ ٹرپ نہ صرف ان کے لیے یادگار لمحے بنانے کا موقع تھا، بلکہ ایک منفرد تجربہ بھی تھا، کیونکہ وہ امریکہ جا رہے تھے۔

“کیا تم تیار ہو، ندا؟” حراء نے ندا سے پوچھا۔ “امریکہ کی سیر کے لیے تمہاری تیاری مکمل ہے؟”

ندا مسکراتے ہوئے بولی، “پہلے تو نہیں تھی، مگر اب ہاں۔”

امریکہ جانے کا خیال ندا کے لیے بہت جذباتی تھا۔ یہ نہ صرف ایک نیا تجربہ تھا، بلکہ ایک نئی دنیا کو دیکھنے کا موقع بھی تھا۔ یونیورسٹی کے اس پروجیکٹ کے بعد ان کے گروپ کے درمیان جو دوستی اور تعلقات بنے تھے، وہ اب ایک نیا رشتہ بن چکے تھے۔

***۔

یونیورسٹی کی ہاسٹل میں رہتے ہوئے ندا نے اپنی تعلیم اور زندگی کے مختلف پہلوؤں پر توجہ مرکوز کر لی تھی۔ لیکن اس سرد موسم اور برف باری کے درمیان اس نے ایک نئی حقیقت کو سیکھا تھا: ہر سرد ہواؤں کے پیچھے ایک گرم دن آتا ہے، اور زندگی میں ہر چیلنج کے بعد ایک نیا موقع ہوتا ہے۔

ندا کی کلاس میں ایک دن بحث چھڑ گئی کہ مصنوعی ذہانت کا مستقبل کیا ہوگا؟ اس موضوع پر نِیل ڈی گریس ٹائسن کا موقف پیش کیا گیا، جس کے مطابق مصنوعی ذہانت انٹرنیٹ کو مکمل طور پر مار ڈالے گی۔ اس کا کہنا تھا کہ جھوٹ کی اتنی زیادہ مقدار اور اس کی ناقابل شناخت نوعیت ہوگی کہ لوگ جو ابھی تک جھوٹی خبروں پر یقین کر لیتے ہیں، وہ بھی انٹرنیٹ کی معلومات پر اعتماد نہیں کر پائیں گے۔ اس طرح کتابوں اور ماہرین علوم کی اصل قدر دوبارہ ابھر کر سامنے آئے گی۔

ندا نے اس بات پر گہری توجہ دی اور اس موضوع پر اپنی تحقیق شروع کر دی۔ وہ اس بحث کے دوران خود کو ایک مؤثر لکھاری کے طور پر دیکھنے لگی، اور فیصلہ کیا کہ وہ نِیل ڈی گریس ٹائسن کے اس موقف پر ایک تفصیلی آرٹیکل لکھے گی۔ ندا نے اس آرٹیکل کو معتبر جریدے میں شائع کرانے کا ارادہ کیا، تاکہ وہ اپنی تحریری صلاحیتوں کو دنیا کے سامنے لا سکے۔ کلاس میں اس کے خیالات کی پذیرائی ہوئی، اور اس نے یقیناً ایک کامیاب رائٹر بننے کی طرف اپنا سفر شروع کر دیا۔

***

ندا کی روم میٹ کا نام رملہ تھا، اور وہ فلسطین سے تعلق رکھتی تھی۔ ندا یہ سن کر بہت متجسس اور حیران ہو گئی، کیونکہ فلسطین کی سرزمین کو وہ ہمیشہ ایک خاص مقام دیتی تھی۔ رملہ کے ہاتھ چومتے ہوئے ندا نے کہا، “آپ انبیاء کی سرزمین کی بیٹی ہیں، یہ میرے لئے اعزاز کی بات ہے۔” رملہ مسکرا کر کہنے لگی، “یہ سرزمین ہمارے لئے فخر کا باعث ہے، اور یہاں کے حالات نے ہمیں مزید مضبوط بنایا ہے۔”

***

ندا نے اپنی فیملی سے بات کی اور انہیں یونیورسٹی ہوسٹل کے بارے میں بتایا۔ اس نے انہیں بتایا کہ وہ اب اکیلے نہیں رہ رہی، بلکہ ہوسٹل میں اپنے نئے دوستوں کے ساتھ رہتی ہے۔ اس نے اپنی فیملی کو بتایا کہ یونیورسٹی کی یہ نئی زندگی اسے نیا حوصلہ دے رہی ہے، اور وہ مصنوعی ذہانت اور مختلف سائنسی موضوعات پر تحقیق بھی کر رہی ہے۔

اس کے ساتھ ہی ندا نے اپنے تحقیقی پروجیکٹ کی کامیابی کے بارے میں بتایا، جس میں وہ اور اس کے گروپ کے ساتھی مصنوعی ذہانت کے ماڈلز پر کام کر رہے تھے جو سماجی مسائل کے حل کے لیے ڈیزائن کیے جا رہے تھے۔

***

ندا نے اپنی جرنل میں لکھا:
“دنیا بدل رہی ہے، اور اس میں سب سے بڑی تبدیلی ہمیں انٹرنیٹ اور مصنوعی ذہانت کے حوالے سے دیکھنے کو ملے گی۔ لیکن میں مانتی ہوں کہ آخرکار انسان کی عقل اور کتابوں کی اصل قدر ہی بچ کر رہ جائے گی۔ یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں سچائی تک لے جاتا ہے۔”

اس کے ساتھ ساتھ ندا نے ملک شام کے بدلتے حالات پر بھی ایک مضمون لکھا۔ اس نے بیان کیا کہ کس طرح شام میں جنگوں اور بحرانوں نے عوام کی زندگیوں کو متاثر کیا ہے، اور کس طرح وہاں کے لوگ اب بھی اپنی تہذیب اور تاریخ کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

***

ندا نے یونیورسٹی کے ہوسٹل کا مکمل جائزہ لیا تھا اور وہ اپنی زندگی کی نئی شروعات کے بارے میں مزید معلومات حاصل کر رہی تھی۔ ہوسٹل کا ماحول دوستانہ تھا اور یہاں کے مینیو میں مختلف قسم کے کھانے شامل تھے، جیسے کہ ہلکی پھلکی سینڈوچز، گرلز، اور سبزیوں کے سالن۔ ندا نے یہ سوچا کہ وہ اپنی اس نئی زندگی میں نئے تجربات کرے گی اور اپنی تعلیم پر پوری توجہ دے گی۔
،۔۔۔

جاری ہے…

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں