لاس اینجلس مقام عبرت
کالم نگار:ام بریرہ
لاس اینجلس، جسے “فرشتوں کا شہر” کہا جاتا ہے، اپنی شاندار تاریخ اور ہالی وڈ کی فلمی صنعت کی وجہ سے دنیا بھر میں جانا جاتا ہے۔ 1781ء میں ہسپانوی آباد کاروں کے ایک چھوٹے سے قصبے کے طور پر قائم ہونے والا یہ شہر 20ویں صدی میں فلموں اور تفریح کا مرکز بن گیا۔ ہالی وڈ نے نہ صرف اس شہر کو عالمی شہرت بخشی بلکہ اسے خوابوں اور تمناؤں کی دنیا میں بدل دیا۔ مگر جہاں یہ شہر لچ اور تعیش کی علامت سمجھا جاتا ہے، وہیں قدرت نے حالیہ جنگلاتی آگ کے ذریعے اسے ایک سخت پیغام دیا ہے۔
لاس اینجلس کی فلمی صنعت، جہاں اکثر مادی دنیا کی چمک دمک اور غیر اخلاقی طرزِ زندگی کو فروغ دیا جاتا ہے، اس سانحے میں بے بسی کی تصویر بنی۔ قدرت نے اس آگ کے ذریعے انسانوں کو یہ وارننگ دی کہ وہ اپنی اصل ذمہ داریوں کو سمجھیں اور اپنے طرزِ زندگی پر غور کریں۔ یہ آگ نہ صرف جانی اور مالی نقصان کا سبب بنی بلکہ ماحول، فضا، اور رہائش پر گہرے اثرات ڈال گئی۔
شہر، جو اپنے گلیمر اور فیشن کے لیے مشہور ہے، اُس رات دھوئیں اور راکھ میں چھپ گیا۔ فلمی سیٹوں پر جو مصنوعی آگیں دکھائی جاتی ہیں، وہ حقیقی زندگی کی اس آگ کے سامنے بے معنی لگنے لگیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے قدرت انسان کو جھنجھوڑ کر کہہ رہی ہو کہ اپنی خواہشات کے پیچھے دوڑنے کے بجائے زمین اور اس کے وسائل کا احترام کرو۔
لاس اینجلس کی یہ آگ صرف ایک حادثہ نہیں بلکہ ایک وارننگ ہے کہ مادی دنیا کے پیچھے بھاگنے والے انسانوں کو قدرت اپنے اصل مقصد اور زمینی ذمہ داریوں کی یاد دہانی کروا رہی ہے۔ یہ لمحہ ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا ہم اپنی ترقی اور تعیشات کے پیچھے قدرت کی عطا کردہ خوبصورتی کو برباد کر رہے ہیں؟ یا اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنی روش بدلیں اور اپنے ارد گرد کے ماحول کا خیال رکھیں؟
لاس اینجلس مقام عبرت