کیا تیسری عالمی جنگ شروع ہو چکی ہے؟
تحریر:ام بریرہ
“ایران کا میزائل اسرائیل کے جنگی ہیڈکوارٹر کو جا لگا ہے۔”
ایک خبر، جس نے دنیا کے ایوانوں میں سنسنی دوڑا دی۔ تل ابیب سے تہران تک، واشنگٹن سے ماسکو تک، ہر طاقتور ملک کے دفاعی ماہرین نے انگلیاں کیلکولیٹرز پر رکھ لیں اور نگاہیں اسکرینوں پر گاڑ دیں۔
یہ خبر کوئی عام واقعہ نہیں — یہ تاریخ کا وہ لمحہ ہے جو بعد میں کسی کتاب کے بابِ اول میں شامل ہو سکتا ہے، جسے آنے والی نسلیں “ورلڈ وار تھری” کے آغاز کے طور پر یاد کریں گی۔
جنگیں ایسے ہی شروع ہوتی ہیں
یاد کیجیے:
پہلی عالمی جنگ ایک شخص — آرچ ڈیوک — کے قتل سے شروع ہوئی۔
دوسری عالمی جنگ ایک شہر — ڈانزگ — پر قبضے سے۔
اور اب، جب تہران نے تل ابیب کے اعصابی مرکز پر وار کیا، تو سوال اٹھا ہے:
کیا یہ محض دفاعی حملہ ہے؟ یا عالمی توازن کو بدل دینے والا حملہ؟
پراکسی سے براہِ راست جنگ تک
گزشتہ دو دہائیوں سے ایران اور اسرائیل ایک دوسرے کے خلاف پراکسی جنگیں لڑتے آئے ہیں۔
لبنان، شام، یمن، غزہ… سب اس شطرنج کا حصہ بنے۔
مگر اب بازی الٹ گئی ہے۔ اب مہروں کی جگہ بادشاہ خود میدان میں اتر چکے ہیں۔
اور جب بادشاہ لڑتے ہیں، تو رعایا مرتی ہے۔
خاموش تماشائی؟
دلچسپ (اور افسوسناک) بات یہ ہے کہ دنیا کے بیشتر اسلامی ممالک تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔
کسی نے مایوس کن مذمت کی، کسی نے خاموشی کو حکمت کا نام دیا۔
مگر کیا یہ خاموشی — آئندہ بمباری کا انتظار ہے؟
دنیا کے طاقتور ممالک — امریکہ، روس، چین — اس صورتحال کو سیاسی اسٹرٹیجی کے طور پر دیکھ رہے ہیں، انسانی بحران کے طور پر نہیں۔
ان کے نزدیک یہ موقع ہے: اسلحہ بیچنے کا، اثر و رسوخ بڑھانے کا، اتحادیوں کو آزمانے کا۔
مستقبل کا منظرنامہ
اگر اسرائیل ایران کے جوابی حملے میں اپنے دفاع سے آگے بڑھتا ہے، اور ایران دوبارہ ردعمل دیتا ہے، تو نہ صرف یہ خطہ بلکہ دنیا کی بڑی طاقتیں — اپنی اپنی حمایتوں کی بنیاد پر اس میدان میں اتریں گی۔
امریکہ اسرائیل کے ساتھ ہوگا۔
چین، روس ایران کی حمایت کر سکتے ہیں۔
ترکی، سعودی عرب، قطر… سب اپنی اپنی سوچ میں الجھے ہوں گے۔
اور یوں ایک ریجنل وار، عالمی تصادم میں بدل سکتی ہے۔
اور ہم؟
ہم، عام لوگ، جو سوشل میڈیا پر “مرگ بر” کے نعرے لگاتے ہیں یا تماشائی بن کر “اپ ڈیٹس” دیکھتے ہیں، شاید نہیں جانتے کہ اگر تیسری عالمی جنگ چھڑ گئی، تو نہ کوئی فاتح بچے گا، نہ کوئی غیر جانبدار۔
ایٹمی دور کی یہ جنگ — شہروں، انسانوں، خوابوں اور نسلوں کو جلا سکتی ہے۔
ایک آخری بات
یہ وقت جذبات میں بہنے کا نہیں، یقین، یگانگت اور فہم کا ہے۔
ہمیں سوچنا ہوگا:
کیا ہم واقعی ایک دوسرے کے دشمن ہیں؟
یا دشمن ہمیں ایک دوسرے کا دشمن بنا کر، خود تماشہ دیکھ رہا ہے؟
> اگر ایران اور اسرائیل کو جنگ میں جھونکا جا چکا ہے،
تو سمجھ لیجیے، تاریخ نے اپنا نیا باب کھول دیا ہے —
اور ہم اس کے خاموش گواہ نہیں، اگلے کردار ہیں۔