سبق یاد کرنے کے عملی طریقے
قسط نمبر ۱
۔۔۔
ہر بچہ سیکھنے کے عمل میں منفرد ہوتا ہے۔ کچھ بچے جلدی سیکھ لیتے ہیں، کچھ کو وقت درکار ہوتا ہے۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ سیکھنے کو آسان اور مؤثر بنانے کے لیے صرف سانس لینے کی مشق بھی مددگار ثابت ہو سکتی ہے؟
ڈاکٹر غزالہ موسیٰ، جو کہ امریکہ سے تربیت یافتہ ماہرِ نفسیات اور تعلیمی ماہر ہیں، اپنی کتاب “تعلیمی کامیابی کے راز” میں بچوں کی ذہنی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے ایک نہایت سادہ مگر مؤثر طریقہ تجویز کرتی ہیں۔ یہ طریقہ تنفس (breathing) اور سمعی یادداشت (auditory memory) کے اشتراک پر مبنی ہے۔
اس مشق کا اصول یہ ہے کہ جب ہم گہرا سانس لیتے ہیں اور کچھ لمحوں کے لیے اسے روکتے ہیں تو ہمارے دماغ میں مخصوص لہریں (brainwaves) متحرک ہوتی ہیں۔ ان لہروں میں “الفا ویوز” وہ لہریں ہیں جو دماغ کو سیکھنے کے لیے پرسکون اور تیار کرتی ہیں۔
ڈاکٹر غزالہ موسیٰ کی مشق یوں ہے:
بچہ گہرے سانس لے
سانس روکے
اس دوران سبق کی ریکارڈنگ سنے یا کوئی جملہ دہرائے
پھر آہستہ سے سانس چھوڑ دے
یہ عمل ذہن کو متحرک کرنے اور توجہ مرکوز کرنے میں مدد دیتا ہے۔ ساتھ ہی جب کوئی آواز یا معلومات دماغ میں سانس روکتے وقت داخل کی جائے تو وہ گہرے ذہنی نقش چھوڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ طریقہ خاص طور پر ان بچوں کے لیے مفید ہے جنہیں یادداشت میں دشواری ہوتی ہے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ سانس لینے کے طریقوں سے نہ صرف دماغی کارکردگی بہتر ہوتی ہے بلکہ اعصابی تناؤ بھی کم ہوتا ہے، جو سیکھنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتا ہے۔
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے کا ذہن تازہ، توجہ مرکوز، اور سبق یاد رکھنے کے قابل ہو جائے، تو دن میں تین سے پانچ مرتبہ اس مشق کو معمول بنائیں۔ یہ نہ صرف تعلیمی کارکردگی بہتر کرے گی بلکہ اعتماد بھی بڑھائے گی۔
ڈاکٹر غزالہ موسیٰ کا یہ منفرد طریقہ ہمیں سکھاتا ہے کہ سیکھنے کے لیے ہمیں مہنگے کورسز یا اضافی کلاسز کی نہیں، بلکہ دماغی کیفیت کو سمجھنے اور سنوارنے کی ضرورت ہے۔
سبق یاد کرنے کے عملی طریقے