منفرد طرز تحریر کی حامل مصنفہ حاجرہ عمرآن آج قلم کتاب پلیٹ فارم کے ہمراہ انٹرویو کے ساتھ موجودہیں ۔قلم کتاب انکی اس فیاضی کے لیے تہہ دل سے مشکور ہے۔
س :آپ اپنا مختصر تعارف کروا دیں(۔تعلیم،پیشہ،کامیابیاں ،شوق)
ج: میرا پورا نام ہاجرہ عمران خان ہے۔ ہاؤس وائف ہوں اور قلم قبیلے سے منسلک ہوں۔ میرا تعلق لاہور پاکستان سے ہے۔ پنجاب یونیورسٹی سے گریجویٹ ہوں، اس کے علاوہ ایجوکیشن سے متعلق ورکشاپس اور کورسس کا حصہ رہی ہوں۔ تدریس کے شعبے سے بھی وابستگی رہی ہے۔
ادب کی دنیا سے تعلق کافی پرانا ہے، کالج کے زمانے سے افسانے لکھنے کا آغاز کیا مگر اپنا کام باقاعدہ پبلش کرانے کا آغاز تین سال پہلے فیس بک پر ایک ادبی گروپ سے کیا۔ اس کے بعد باقاعدہ قلم کے سفر کا آغاز ہوا۔ مختلف ادبی گروپس و جرائد جیسے الف کتاب، الف نگر، قلم کی روشنی ، عالمی افسانہ، داستان دل، ادب رنگ،آل رائٹرز ، میں افسانے شائع ہوئے۔جنہیں قارئین کی طرف سے خاصی پذیرائی حاصل ہوئی الحمد اللہ۔
الف کتاب پر ایک ہی سال 2018ء میں ناولز کے دو مختلف مقابلوں میں ” زمانے کے انداز بدلے گئے” اور “داستانِ محبت ” میں بالترتیب ٹاپ پندرہ اور ٹاپ پچیس میں نام شامل ہوا۔الحمد اللہ۔۔۔۔۔۔
لکھنے کا سلسلہ ماہانہ اردو خواتین رسائل تک پہنچا اور مختلف ماہناموں میں افسانے لگنا شروع ہوئے۔ جیسے دوشیزہ، پاکیزہ، صائمہ، خواتین ڈائجسٹ وغیرہ، الحمد اللہ۔
مختلف ویب سائٹس اور اخبارات میں آرٹیکلز لگنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
افسانوں کا مجموعہ ” سہہ برگ ” تین سہیلیوں کی مشترکہ کاوش بھی ریڈرز کی زبردست پذیرائی حاصل کرچکی ہے۔ الحمد اللہ۔
اپوا کے تحت افسانوں کا مجموعہ ” داستانِ سخن” چھپنے جارہا ہے اس میں میرے ناولٹس شامل ہیں
س:لکھنے کی طرف کیسے آئیں ؟
لکھنے کا شوق مطالعہ سے پیدا ہوا۔ بچپن میں جب بھی کوئی کہانی پڑھتی تھی تو یہی سوچتی تھی کہ میں بھی لکھ سکتی ہوں ۔ یوں سمجھیں کہ قدرت کی طرف سے میرا خمیر قلم اور کتاب سے اٹھایا گیا ہے۔ کتاب میرا اوڑھنا بچھونا ، نیند ، خواب اور امید سب کچھ ہے۔ بس اسی محبت نے مجھے قلم اٹھانے پر مجبور کیا۔ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو پیدائشی رائٹر ہوتے ہیں۔ البتہ محنت ، لگن اورجستجو کے بغیر ہر شوق نامکمل اور ادھورا ہوتا ہے۔
س:ان کتابوں ان شخصیات کے نام جنہوں نے آپ کو متاثر کیا؟
اردو ادب کو ترویج دینے والی ادبی شخصیات ایک سے بڑھ کر ایک ہیں، اسلم راہی سے شروع کرلیں، نسیم حجازی، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی ، امرتا پریتم، مستنصر حسین تارڑ ، اشفاق احمد، بانو قدسیہ_ احمد ندیم قاسمی، امجد اسلام امجد، سب اردو ادب کے نہ صرف معمار ہیں بلکہ اردو ادب کے ستون ہیں،یہ سفر رکا نہیں جدید دور میں محمود ظفر ہاشمی، عمیرہ احمد، نمرہ احمد، لبنیٰ غزل اور کئی ایسے نام ہیں جو اس سفر میں شامل ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ میں ان سب سے متاثر ہوں اور ادبی سفر میں یہی میرے استاد ہیں۔ ابھی جو ہمارے نئے لکھنے والے ہیں میرے ہم عصر ان میں سے کئی ایک ہیں جو اپنا نام بنائیں گے اور ایک وقت آئے گا جب ان کے کام کو وہی ادبی مقام حاصل ہوگا جو ہمارے پہلے ادیبوں کو مل چکا ہے ان میں شہریار قاضی، سارہ احمد، کشف بلوچ ، لعل خان، گل ارباب اور کافی نام ہیں جو اردو ادب پر اپنے اچھے اثرات مرتب کریں گے انشاء اللہ۔ اردو ادب کے علاوہ میں ترک رائٹر ایلف شفق سے متاثر ہوں جو ایک مختلف طرزِ فکر کی نمائندہ ہیں۔ ان کا فورٹی رول آف لو ایک کلاسیکل ناول ہے۔
س:آپ کی تحریر کی نمایاں خوبی برجستگی اور روانی ہے آپ اپنی تحریرکو نکھارنے کے لیئے کس چیز سے مدد لیتی ہیں؟
ج :مطالعہ سے ، مشاہدہ سے، ہر ادیب کی فکر اس کے زمانے سے اخذ کردہ ہوتی ہے۔ زمانہ کہیں جارہا ہو اور ادیب کچھ اور لکھ رہا ہو تو ایسا ممکن نہیں۔ جب ایک انسان ایک ادیب بھی ہوتا ہے تو وہ زمانے سے آنکھیں نہیں موند سکتا۔ میرے خیال میں ہر ادیب کے کاندھے پر اس کے زمانے کا قرض دھرا ہوتا ہے، ایک اچھا ادیب جب تک وہ قرض ادا نہیں کرلیتا تب تک وہ ادیب کہلانے کا مستحق نہیں ہوتا۔ میں جو بھی لکھتی ہوں اپنے گردوپیش سے اخذ کرتی ہوں۔ روانی اور برجستگی خودبخود پیدا ہوجاتی ہے ، الحمد اللہ۔باقی رہی تحریر میں نکھار لانے کی بات تو اس کے لیے اچھے ادب کا مطالعہ ہی بہترین راستہ ہے جو میری سوچ کو نئی جہت بخشتا ہے اور ایک مضبوط سوچ آپ کے قلم کو رواں رکھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔
س:کیا آپ باقاعدہ سوچ کے لکھتی ہیں یا پھر کہانی آپ کو لے کے چلتی ہیں؟
یہ تو عنوان پر منحصر ہے۔ کبھی باقاعدہ سوچ کر لکھنا پڑتا ہے تاکہ ہم اپنا نقطہ ء نظر دوسروں تک پہنچا سکیں اور کبھی کبھار کوئی تحریر خود کو لکھواتی چلی جاتی ہے۔ میں نے دونوں طرز پر لکھا ہے مگر زیادہ تر تحریر خود کو خودبخود لکھواتی ہے۔
س:آپ کے فیورٹ رائٹر کے نام؟
جدید دور میں میری فیورٹ نمرہ احمد ہیں۔سمیرا حمید بھی زبردست لکھتی ہیں۔
س:زندگی میں کس چیز کی کمی محسوس ہوتی ہے؟
ج: بقول شاعر ، کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا۔ تو کمی تو رہتی ہے، مگر میرے پاس شکر کرنے کے لیے نعمتیں زیادہ ہیں اسی لیے وہ کمی محسوس نہیں ہوتی۔ الحمد اللہ۔
س:کیا آپ سمجھتی ہیں کہ ہمارے ہاں بامقصدادب تخلیق نہیں ہو رہا اگر نہیں تو کیوں؟
ج : ہمارے ہاں بے حد اور بے حساب ادب تخلیق ہورہا ہے مگر بد قسمتی سے اسے دو حصوں میں تقسیم کیا جاچکا ہے۔ دورِ حاضر میں پاپولر ادب اور فکشن کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ کیونکہ زیادہ تر ریڈرز ہلکا پھلکا اور انٹرٹیننگ پڑھنا چاہتے ہیں۔ معیاری ادب کی تخلیق اور ترویج اس لیے بھی کم ہے کیونکہ ریڈرز کا رجحان اس طرف کم ہے۔ میری رائے کے مطابق پاپولر فکشن اور ادب کو کوئی درمیانی راستہ اختیار کرنا چاہیے جس سے اردو ادب کا معیار بھی برقرار رہے اور ریڈر کی دلچسپی بھی اپنی جگہ قائم رہے۔
س:کیا آپ اپنے لکھے ہوئے سے مطمئن ہیں۔؟
ابھی تو صحیح سے قلم تھامنے کا ہنر بھی نہیں سیکھا۔ . . . مطمئین ہونا تو بہت دور کی بات ہے۔ جتنا لکھا الحمد اللہ میرے ریڈرز نے سراہا، بہت سی داد حاصل کی، اس سے میرے حوصلوں کو تقویت ملی ہے۔ مگر ابھی بہت کچھ ہے جسے صفحہء قرطاس پر اتارنا باقی ہے۔ انشاء اللہ۔
س:نئے لکھنے والوں کے لیئے کوئی پیغام؟
ج: میرا پیغام لکھنے اور پڑھنے والے دونوں کے لیے ہے۔
یاد رکھیے! اچھا پڑھنا بھی ایک آرٹ ہے۔ پڑھنے والے اپنے آپ کو قیمتی سمجھیں۔ کیونکہ کسی قوم کی تعمیر میں صرف اچھا لکھنے والے ہی اپنا کردار ادا نہیں کرتے بلکہ اچھا پڑھنے والے بھی اسے ایک باشعور قوم بناتے ہیں۔
لکھنے والوں کے لیے پیغام ہے کہ لکھنے کو ذمہ داری سمجھ کر لکھیں کیونکہ قلم کی حرمت بہت زیادہ ہے، کچھ بھی لکھیں مگر ایسا کہ کوئی آپ سے کچھ سیکھ سکے اور آپ کو اچھے الفاظ میں یادرکھے۔ کیونکہ ایک ادیب، سوچ، خیال اور روّیہ تعمیر کرتا ہے اور یہی خصوصیات ایک اچھا فرد تخلیق کرتی ہیں اور اچھے افراد ہی مل کر ایک عمدہ معاشرہ تعمیر کرتے ہیں۔ سو اچھا اچھا لکھتے رہیے۔
قلم کا سفر جاری ہے ۔ الحمد اللہ ۔*