545

لمس محبت

تحریر شئیر کریں

لمس محبت

نصرت یوسف


چھٹی کی گھنٹی بجنے میں بس کچھ ہی دیر باقی ہوتی، ڈھلتی دھوپ لمبے ستونوں پر جمتی نظر آتی، اور اسی دھوپ مانند نرم سا وہ وجود اپنے دراز قد کے ساتھ کمرہ جماعت میں مخصوص شیلف کے پاس کھڑا ہو کر کہانی کی کوئ ایک رنگ برنگی کتاب اٹھا لیتا. وہ اس جماعت کی استانی اوشا تھی. شفیق اور مسکراتے چہرے والی.


اس کے کتاب اٹھاتے ہی ابتدائ جماعت کے اس کمرہ کو گویا سانپ سونگھ جاتا، اور پھر اس کے کرسی پر بیٹھتے ہی دھان کے چھلکے جیسے رنگ اور نازک چہرے پر سفید موتیوں سے چمکتے دانت بار بار مسکراتے نظر آتے اور کتاب کی سیر استانی شروع کرا دیتی ، دو چار ہی تو کتابیں تھیں جو اس شیلف پر تھیں جہاں دنیا خوبصورت دکھتی تھی.


بس thumbelina یاد رہ گئ. کہانی سننے کے وہ لمحات بڑے ہی خوبصورت ہوتے، ساری جماعت جو کہ پچاس کے لگ بھگ نھنھے بچوں کی تھی اتنی محویت سے منی سی تھمبلینہ کو سنتی گویا وہ اوشا میڈم نے کتاب سے نکال کر ایک تھکے ہوۓ روایتی اسکول دن کے بعد زندہ کردی ہو. وہ سب کبھی ایک دوسرے کو دیکھ کر ایسے مسکراتے گویا تھمبلینہ کا پھول بستر استانی اوشا کی میز پر آچکا ہو.


اسکول کے خشک ترین ماحول اور درو دیوار سے زیادہ اوشا میڈم کے ساتھ زندگی دھیمی ہوتی شام میں بہتر لگتی اور دوست بھی.
یکایک گھنٹی بج جاتی، ارتکاز ایسے ٹوٹتا کہ الفاظ سے بنی دلکش دنیا سے واپسی دل پر بھاری پڑتی لیکن میڈم اوشا کی دراز گردن میں مومی موتی کا ہمیشہ پہنا پینڈیت ہلتا، وہ بہت محبت سے کتاب رکھ کر بچوں کی قطار بنواتے انہیں گڈ ایوننگ کہتے اپنا لمس محبت اتار جاتیں.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں