569

اقبال فہمی کی ضرورت کیوں ہے؟

تحریر شئیر کریں

اقبال فہمی کی ضرورت کیوں ہے؟

یہ سچ ہے کہ علامہ اقبال ایک ایسی شخصیت ہیں جو صدیوں بعد تخلیق ہوتیں ہیں۔خواہ ان کی ذات کو کتنا بھی متنازعہ  کیوں  نہ بنا دیا جائے۔۔۔روشنی تو روشنی دے گی اگر چہ اسے لاکھ پردوں میں چھپا کر رکھا جائے۔یہی وجہ ہے کہ کلام اقبالؒ کی جتنی ضرورت کل تھی شاید اس سے کہیں زیادہ آج ہے۔زیر نظر آرٹیکل میں اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی جائے گی ۔کہ کلام اقبالؒ کی ضرورت نئی نسل کو کیوں ہے؟

اقبالؒ فرماتے ہیں

اے طائر لاہوتی اُس رزق سے موت اچھی

جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

رزق حلال کی اہمیت پہ اس سے اچھی  بات شاید ہی کوئی ہو سکتی۔آج دنیا جس جنون اور دیوانگی کا شکار ہے۔اس کی  سب سے بڑی وجہ رزق حلال   سے محرومی ہے۔بانو قدسیہ لکھتی ہیں کہ اپنی نسلوں کو رزق حرام سے بچا لو نہیں تو وہ پاگل اور دیوانی ہو جائے گیں۔حرام کا ایک نوالہ  انسان کی سات نسلوں پہ اثر انداز ہوتا ہے۔یہ بات سائنس بھی ثابت کر چکی ہے۔کلام اقبالؒ  نے بھی اس اہم نقطے کو فراموش نہں کیا۔زندگی کا مقصداقبالؒ فرماتے ہیں کہ اللہ نے کائنات کو مومن کے لئے مسخر کر دیا ہے لیکن صرف ایک مومن ہے جس  کو اپنے لیئے پیدا کیا۔کتنی خوبصورتی سے مقصد حیات واضح ہو رہا ہے۔

نہ تو زمین کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے                          جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے

بلند مقصدیت  اور زندگی میں آگے بڑھنا یہ اگر سیکھنا ہے تو اقبالؒ سے سیکھئے۔۔فرماتے ہیں

کہ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں  

    ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں

شاہین ہے پرواز ہے کام تیرا      

   تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں

علامہ اقبالؒ نے  خودی پہ بہت زور دیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ خودی ایک بحر بے کنار ہے لیکن بدقسمتی سے ہم نے اسے ایک چھوٹی سی ندی سے زیادہ نہیں سمجھا۔ خودی کیا چیز ہے؟خودی کامطلب یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو پہچان سکے ۔اپنے رب کو پہچان سکے۔اپنے  آنے کے مقصد کو جان سکے۔ دوسرے لفظوں میں خودی کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے اندر جو صلاحیتیں اور قابلیتیں موجود ہیں اُن کو پہچاننا اور ان کا صحیح طریقے  سے استعمال میں لانا ہے۔خودی وہ بحر ہے جس کوئی کنارہ نہیں
تو آبِ جُو اسے سمجھا اگر تو چارہ نہیں

اپنے من ڈوب کر پاجا سراغ زندگی 
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
انسان اشرف المخلوقات ہے اور اس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے جبکہ باقی ساری کائنات کو انسان کے لیے پیدا کیا ۔ یہ انسان کا کام ہے کہ اپنے اندر موجود صلاحیتوں کو استعمال کرکے تسخیرِ کائنات کا کردار ادا کرے ۔ علامہ اقبال مسلمانوں سے فرماتے ہیں کہ آپ نے اپنے اندر موجود صلاحیتوں کو استعمال کرنا چھوڑ دیا ہے جبکہ خودی اس کو استعمال کرنے کا نام ہے۔

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
اقبالؒ نے عمل کی قوت پہ بہت زور دیا۔۔یہ وہ کام تھا جو انبیاء نے کیا۔انبیاء کے اس مشن کو اقبال نے اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔اور قوم کو اس اہم حقیقت سے روشنا س کروایا کہ خالی عقیدے سے کام نہیں بننے والا،جب تک عملا دریا میں نہیں کودو گے۔۔تیرنا نہیں آئے گا۔زندگی بھی ایک سمندر ہے۔عملی زندگی کے اتار چڑھاو ہی انسان کو انسانیت سے آشنا کرتے  ہیں۔عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی


یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
علامہ اقبالؒ نے ایسے حالات میں آنکھ کھولی جہاں چہارطرف غلامی کے اندھیرے تھے۔یہی وجہ تھی کہ انھوں نے  بندہ و آقا کی تمیز ختم کرنے پہ بہت زور دیا۔اور ایک ایسی قوم کو ولولہء اور جوش عطا کیا۔ جو سو چکی تھی ۔ان کی آنکھوں کو خواب دیکھنے کا عادی بنایا۔جو خواب دیکھنے سے عاری ہو چکی تھیں۔ہوس اور حرص میں مبتلاا نسان کو ایک جھنڈے تلے لا کر بٹھا دیا۔یہی اخوت اور محبت کا درس تھا کہ دنیا کے نقشے پہ پاکستان نمودار ہوا۔ہوس نے کردیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوع انسان کو 


اخوت کا بیاں ہوجا، محبت کی زباں ہوجاعلامہ اقبالؒ کا یک بڑا کارنامہ تہذیب مغرب   کی اصلیت کا پردہ چاک کرنا ہے۔اندھی تقلید انسان کو ہمیشہ حق کے راستے سے بھٹکاتی ہے۔یہی وجہ تھی کہ اقبال ؒ مغربی تہذیب کی اندھا دھند نقالی کے خلاف تھے۔۔لیکن ان کی اچھی چیزیں لینے  میں کوئی برائی نہیں سمجھتے تھے۔ان کے خیال  میں  قومیں محکوم ہو کر سطحیت  کا شکار ہو جاتی ہیں۔مغربی تہذیب  پہ لکھتے ہیں

تمہاری تہذیب آپ اپنے خنجر سے خود کشی کرے گی           جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا

اقبال نے اسلام کے اہم رکن جہاد پہ بہت  لکھا اور پورے یقین سے لکھا۔شہادت پہ لکھتے ہیں کہ

شہادت ہے مطلوب و مقصودو  مومن     نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی

آ تجھ کو بتاوں تقدیر امم کیا ہے شمشیروسناں اول طاوس و رباب آخرفتویٰ ہے شیخ کا، یہ زمانہ قلم کا ہے                 دنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر

لیکن جنابِ شیخ کو معلوم کیا نہیں مسجد میں اب یہ وعظ ہے،بے سودو بے اثرسچ تو یہ ہے کلام اقبال افسردہ دلوں میں عزم و ہمت کی روح پھونک دیتا ہے۔سچ  ہے کہ قومیں شاعروں کے دلوں میں فروغ پاتی ہیں۔اقبال نے  اس قوم کو واقعتا قوم بنایا۔۔آج پھر ضرورت ہے کہ کلام اقبال کو سمجھا اور عمل کیا جائے۔تاکہ بیداری کا کام شروع ہو سکے۔اس مقصد کے لیئے سکول اور کالجز میں باقاعدہ منصوبہ بندی سے کا م شروع یا جائے۔ہفتے میں ایک دن کلام اقبال ضرور پڑھایا جائے۔ہر لیو ل پہ کلام اقبال کو منتقل کیا جائے تاکہ طلبہ بآسانی اس سے روشناس ہو سکیں۔کلام اقبال کو باقاعدہ سلیبس میں  شامل کیا جائے۔اور  اساتذہ کو فہم اقبالؒ کی ٹریننگ دی جائے۔

قومی سطح پر سیمینارز اور ورکشاپس کروائی جائیں جہاں کلام اقبال ؒ کو باقاعدہ سمجھایا جائے۔کلام اقبال کی پرموش کے لیئے سالانہ سطھ پر مقالہ جات لکھوائے جائیں اور اس پر حوصؒہ افزائی کے لیئے انعامات مقرر کیئے جائیں۔اقبال پر جو لوگ تصنیفات لکھنا چاہیں ان کی مالی معاونت کی جائے۔تاکہ یہ سلسلہ جاری رہے۔

اقبال فہمی کی ضرورت کیوں ہے؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں