317

اپنے بچوں پہ توجہ دیجیے

تحریر شئیر کریں

اپنے بچوں پہ توجہ دیجیے

اپنے بچوں سے لاتعلق مت رہیں
۔میری بیٹی ابھی چھ ماہ کی تھی۔اپنے بابا کی گود میں بیٹھی کھیل رہی تھی۔میں گھر کے کام کاج میں مگن تھی۔اصل میں وہ سو کر اٹھی تو اس کے بابا نے اٹھا لیا تھا جبکہ میں نے ابھی اسے نہیں اٹھایا تھا جیسا کہ عموما ہوتا جب وہ سو کر اٹھتی تو ہم دونوں میاں بیوی اسے خوب پیار کرتے۔کام کرتے کرتے اچانک میں اسکے سامنے سے گزر کے دوسرے کمرے میں گئ۔بے خیالی میں میں نے اسے نا دیکھا اور گزرگئ

۔میرے گزرنے کی دیر تھی وہ دھاڑے مار مار کر رونے لگی۔اس کے رونے کی آواز پر جب میں نے اسے اٹھایا تو اس کے رونے میں اور شدت آ چکی تھی۔اس شدت میں بے رخی بے اعتنائی کے وہ سارے شکوے پنہاں تھے جو کہ اس نے اپنی ماں کی زرا سی بے اعتنائی سے محسوس کیے تھے۔میں اس کے اس رونے سے دنگ رہ گئ کہ اتنا چھوٹا سا بچہ کیسے اگنور ہونے کا دکھ محسوس کرسکتا ہے۔

بچے جسمانی طور پر بڑھ رہے ہوتے ہیں،اوزہنی اعتبار سے چھوٹے رہ جاتے ہیں۔ہم بڑے کبھی انکے اس خلا کو محسوس ہی نہیں کرتے جو چپکے چپکے ان کو ابنارملٹی کی طرف لے کر جا رہا ہوتا ہے۔

اپنے بچوں سے باتیں کریں ۔ یہ بھی پڑھیے

اپنے بچوں کو دین سکھائیں۔

بچوں کو چینلنج دیجے۔

خالی کھانے سے پیٹ تو بھرتا ہے روح نہیں بھرتی۔بچوں کے لیے محبت اکسیجن کی طرح ہوتی ہے۔جس کی کمی انسان کو موت کی طرف لے جاتی ہے۔

زمانہ پہلے جیسا نہیں رہا۔وقت کی لگامیں اب تیز اور تیز بھاگ رہیں ہیں۔بچے زرا سی بے اعتنائی اور عدم توجہی سے کملا جاتے ہیں۔محبت شفقت کا پانی دیتے رہیے وہ پھل پھول دیتے رہیں گے مگر زرا سی کمی سے یہ پودے کسی برائی کی کوکھ میں جا گریں گے۔اور کبھی کبھی تو یہ کوکھ وہ پاتال ثابت ہوتی ہے جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہوتی۔

تو زرا سوچیں کہ جس بچے کو مہینوں تک کسی نصیحت اور تربیتی نشست کا موقع ہی ناملتا ہو۔

اے ماں اور اے باپ!!

آپکے بچے کو نت نئے کپڑوں کی ایسی ضرورت نہیں ناہی بڑے جیب خرچ کی ناہی لمبی چوڑی میراث کی۔جتنی ضرورت انکو اس چیز کی ہے کہ آپ انہیں اپنی نگرانی میں اللہ کی محبت کو اور اس عقیدہ کو کہ وہ ہمیں دیکھ رہا ہے انکی گھٹی میں ڈال دیں۔

آپ دیکھتے رہیں کہ کونسی نیک خصلتیں آپکے بچے میں موجود ہیں آپ ان کی ایک پودے کی طرح آبیاری کیجیے۔
نظر رکھیے کہ کونسے برے رجحانات ان میں نمو پا رہے ہیں سو آپ انکو اکھاڑ پھینکیں بچوں کی اخلاقیات کو ان سے پاک کریں۔

باپ کو توجہ دینا ہوگی!

اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی کوتاہی ناقابل برداشت ہے۔کیونکہ یہ آنے والے اس درخت کی۔پرورش ہے کل کو جس کی گھنی چھاؤں میں آپ نے آرام کرنا ہے۔
صحابہ کرام پوری دنیا فتح کرتے پہر اپنے بچوں کے پاس لوٹتے تو انکے دلوں کو فتح کرتے انکی بہترین تربیت کرتے دین اور اخلاق کے زیور سے انہیں آراستہ کرتے۔

اس فرض سے پہلو تہی مت کیجیئے۔

کیونکہ باپ کی چھاپ اور ماں کا پیار!!

بچے کو ان دونوں کی ضرورت رہتی ہے۔

یہ عذر بھی مت تراشئیے کہ آپ انکے لئے رزق کی تلاش میں مصروف ھوتے ہیں کیونکہ بہت برا ہے وہ رزق کہ جسکے نتیجے میں امت کو ایک ایسی نسل ملے کہ جسکے جسم تو خوب تنومند اور توانا ہوں مگر اخلاق پستہ اور کمزور۔

زمانہ بہت مشکل ہوگیااور بچے بخدا معصوم ہوتے ہیں ہمارے مقابلے میں اس عمر میں اب انہیں بہت زیادہ توجہ درکار ہوتی ہے کیونکہ ہر دور کے فتنے اور آزمائشیں بہت مختلف ہوا کرتیں ہیں۔

اپنے گھروں کو لوٹ جائیں اور بچوں کو جی بھر کر اپنائیت اور پیار دیں۔

انکے ساتھ کھیلیں اور انہیں ایسے قصے سنائیں کہ جن سے انکی ذات میں عمدہ صفات پیدا ہوں۔

انکی باتیں خوب غور سے سنیں۔

انکی خاطر اپنے موبائل چھوڑ دیا کریں۔

ان بھولے بھالے بچوں کی کھلکھلاہٹ ہی آصل زندگی ہے۔جو ہر ڈپریشن کا علاج بھی ہے۔جی ہاں ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈپریشن والے لوگ اگر اپنا وقت بچوں سے کھیل کود میں گزاریں گے تو ان کا ڈپریشن لیول کافی حد تک کم ہوجاۓ گا۔

اپنے جگر کے ٹکڑوں کیلیے پوری دنیا بھی چھوڑ دینی پڑے تو چھوڑ دیں۔

کیا پتہ کل کو یہی بچے آپ کے مرنے کے بعد دل کی گہرائی سے دعا مانگے کہ

رب اغفر لی ولوالدی

پروردگار! مجھے اور میرے ماں باپ کو بخش دے!

یہ دعا ان سب فضولیات سے کہیں بڑھ کر ہے کہ جنکے چکر میں آپ انہیں وقت نہیں دے پاتے۔۔

اپنے بچوں پہ توجہ دیجیے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں