408

کتابوں سے دوستی کی آخری صدی

تحریر شئیر کریں

کتابوں سے دوستی کی آخری صدی

اس نے بہت عرصےبعد کتاب کھولی تھی۔۔نظریں لفظوں سے پھسل پھسل کے ادھر ادھر جا رہیں تھیں۔دماغ فوکس نا ہو تو نظریں کہاں ٹھہرتیں ہیں۔ثمین کا بھی یہی حال تھا۔اسے یاد آیا وہ کتابوں کی کتنی رسیا ہوا کرتی تھی۔خاندان بھر میں کتابی کیڑا مشہور تھی۔رات کا اختتام کتاب پڑھنے سے ہوا کرتا تھا ،صبح بستر بعد میں اٹھاۓ جاتے مگر کتابیں جو سرہانے رکھیں ہوتیں وہ پہلے اٹھائیں جاتیں ۔زندگی لفظے پڑھتے پڑھتے اچانک سے بدل گئ تھی۔1998ء کا سن تھا اور مشرف کا دور جب کتابوں سے دوستی چھوٹی تو سکرین سے دوستی شروع ہوگئ تھی۔۔۔پہلے کتابیں کم ہوئیں پھر اور کم ہوتیں گئہں۔اور پھر ایک وقت آیا ڈبوں میں بند ہوگئیں تھیں۔کھلتی تو تھیں مگر سال کے بعد وہ بھی دھوپ لگوانے کے لیے۔


۔۔۔۔زندگی اتنی بدمزہ اور پھیکی کبھی نا تھی جتنی ان سکرینوں نے کر دی تھی۔سکرین کی نحوست ہی ایسی تھی کہ جو چھوٹ کے نا دیتی تھی۔دن رات اسی کی نزر ہو رہے تھے۔۔۔پھر کرونا آگیا۔لاک ڈاون لگا تو بھاگتی دوڑتی زندگی کو زرا بریک لگی۔تھوڑا سستاۓ تو پتہ چلا کیا کچھ اس تیزرفتاری کی نذر ہوگیا۔انہی میں سے ایک کتا بیں بھی تھیں۔کتابیں جوزندگی سکھاتیں۔کتابیں جو جینا ہی نہیں مرنا بھی سکھاتیں ہیں۔کتابیں کیا گئیں۔یم جینا اور مرنا دونوں ہی بھول گۓ۔بھلا ہو کرونا وائرس کا جس نے یاد تو دلایا کبھی کتاب نامی دوست بھی ہوا کرتا تھا۔
۔۔۔۔
آج اسی دوست سے ملنے کی ٹھانی تھی جبھی کتاب اٹھائی اور ریڈنگ شروع کر دی۔مگر یہ کیا۔کتاب تو ہاتھ میں تھی مگر لفظ ہاتھ نہیں آ رہے تھے۔بھاگ رہے تھے کبھی ادھر تو کبھی ادھر۔۔۔۔کتاب ہاتھ میں لیے وہ ششد بیٹھی تھی ۔اسے لگا جیسے لفظ روٹھ بیٹھے ہوں۔اور یی سچ بھی تھا۔لفظ لکھنے والوں سےہی نہیں پڑھنے والوں سے بھی روٹھ جایا کرتے ہیں۔اور روٹھے ہووں کو منایا جاتا ہے۔ثمین نے کتاب کے کھلے صفحے پر ہاتھ پھیرتے ہوۓ وعدہ کیا تھا کہ وہ اب کبھی نہیں بھولے گی لفظوں کی حرمت کو ہمیشہ یاد رکھے گی۔اور کتاب سے دوستی ہمیشہ قائم رہے گی۔اسے لگا جیسے لفظ مسکرا دیے ہوں۔اور لفظوں کے ساتھ وہ بھی مسکرا دی تھی۔اپنے کھوئی دوست کتاب کو پا کر۔

کتابوں سے دوستی کی آخری صدی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں