499

کارٹون بچوں کی شخصیت پر کس قدر اثرانداز ہو رہے ہیں

تحریر شئیر کریں

کارٹون اور بچے ایک ایسا موضوع ہے جو لازم و ملزوم بن چکا ہے۔حالانکہ کارٹون بچوں کی شخصیت سازی کے لیے مہلک ہیں۔اور بعض کارٹون دیکھنے پہ شرعی لحاظ سے قدغن لگتی ہے۔اور فتاوی ہیں کہ گناہ کا کام ہے۔اول اس میں میوزک ہوتا
جس کے بارے میں نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ انا بکسرالمزامیر “میں آلات موسیقی توڑنے کے لیے بھیجا گیا ہوں۔پھر کارٹون انسان کی بگڑی ہوئی ساخت جو از خود انسانیت کی توہین ہے۔ایک بات اور جو سب سے زیادہ واجب الاعتراض ہے۔اس میں بچوں کو فحش اور بزدلانہ مواد دکھایا جا رہا ہے جو بچوں کی گرومنگ کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔سکرین دیکھنے کے اپنے نقصانات ہیں۔بچے جب کارٹون دیکھتے تو عام طور بیٹھے رہتے۔۔اور اوپر سے کھاتے رہتے۔یہ چیز انھیں سست کاہل اور نکما بنا دیتی ہے۔یہ وہ عمر ہوتی ہے جب بچوں کو بھاگ دوڑ اور کھیل کود کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔بڑھتی عمر میں خوراک سے بھی زیادہ کھیل کود ضروری ہوتا ہے۔
سب سے بڑی بات کارٹون جھوٹ ہوتے۔ڈرامے موویز کے نام پر ہم جو کچھ دیکھتے یہ حقیقت پر مبنی نہیں ہوتا ہے۔اس لیے افلاطون نے ہزاروں سال پہلے کہہ دیا تھا کہ ڈرامہ انسانی شخصیت کے لیے مہلک ہے۔سات سال تک بچے اس کو حقیقت سمجھ رہے ہوتے۔حالانکہ یہ سچ نہی ہوتا۔دشمن کا فارمولا ہے کہ جھوٹ اتنا دکھایا جاۓ کہ سچ لگنے لگے۔جھوٹ پر مبنی کرداروں میں بچے اتنے محو ہو جاتے ہیں کہ انھیں سچ سمجھنے لگتے ہیں۔

کسی سے اگر کہا جاۓ کہ میرے بچے تو کارٹون نہیں دیکھتے تو آگے سے فٹ سے جواب آتا کہ پھر تو وہ بہت اودھم مچاتے ہوں گے۔۔۔حالانکہ روح کی گندگی زیادہ نجس یا گھر کی؟؟؟ایک اہل ایمان ماں کو یہ پتہ ہونا چاہیے۔۔۔

سب سے پہلے اپنی ترجیحات کا تعین کریں کہ کیا چیزیں بچوں کی زندگی میں شامل کرنی اور کیا نہیں۔۔؟؟
جب پختہ عہد کر لیں تو اس کی کامیابی کے اللہ سے دعا کریں اور بھروسہ بھی کہ یقینا کامیابی ہوگی۔

ایک اور چیز ہمارے معاشرے میں بچوں کی خرابی کا سبب بن رہی ہے وہ یہ کہ مائیں بچوں کو بتاتیں نہیں۔ان کے خیال میں ابھی عمر نہیں۔حالانکہ یہی تو عمر ہوتی سیکھنے کی۔۔۔۔سائنس کے مطابق چار پانچ سال تک بچوں نے جو بننا ہوتا وہ بن چکے ہوتے۔۔۔کارٹون فلمیں بجٹ کے اعتبار سے کافی مہنگی ہوتیں ہیں۔یہ بنانے والے ایسے نہیں ہمارے بچوں کے لیے دن رات اپنا پیسہ اور وقت ضائع کررہے۔۔یہ انکا عقیدہ بنا رہے جیسا کہ چاہ رہے۔۔سست کاہل نکمے دوسروں پہ انحصار کرنے والے۔۔۔بے حیا ۔۔۔یہ۔وہ۔اقدار ہیں جو ہمارے عقیدے کی رو سے غلط ہیں۔ایک مومن کا نکما نہیں ہوتا۔۔بے حیا نہیں ہوتا۔

اپنے بچوں پہ توجہ دیجیےیہ بھی پڑھیے

موبائل بچوں کی صحت کے لیے مضر

بچوں کو دن میں ہزار بار بھی بتانا پڑے تو بتائیں کہ کارٹون کس قدر خراب ہوتے۔اور گانا یہ شیطان کی اذان ہے۔اور سب بچے جانتے کہ شیطان گندا ہوتا۔یقین کریں آپ کی باتوں کا ان پہ اثر ضرور ہوگا۔جب کارٹون اثرانداز ہوسکتے تو اچھی اور پر اثر باتیں کیوں نہیں؟
وہ بچے غیر نہیں آپ کے اپنے ہیں۔ان سے بغض نا رکھیں۔انھیں سکھائیں پیار سے محبت سے شفقت سے۔۔۔باقاعدہ سیکھا جاۓ کہ کس طرح سے بچوں کو سکھایا جاتا ہے۔ڈاکٹر غزالہ موسی پاکستان کی مشہور سائیکالوجسٹ ہیں انھوں نے “بچے آپ کی بات کیوں نہیں مانتے”پہ ایک زبردست آرٹیکل۔لکھا ہے۔جسے پڑھ کر ہزاروں مائیں مستفید ہو چکیں ہیں۔
بچوں کی جب تک کانٹ چھانٹ نا کی جاۓ یہ خود رو جھاڑیوں کی طرح جدھر کو رخ ہوتا بڑھنا شروع کر دیتں ہیں۔حالانکہ دماغ پلاسٹک ہوتا۔پلاسٹک اس چیز کو کہتے جو کسی بھی سانچے میں ڈھالا جا سکتا ہے۔پلاسٹک کو پلاسٹک اسی لیے کہتے کہ اسے کسی بھی شکل میں شکل دے دی جاتی ہے۔بچے کم عمری میں جو سنتے وہ ہمیشہ کے لیے ان کے دماغوں کے لاشعور میں نقش ہوجاتا اور پھر اسی سے عقیدہ بنتا اور پروان چڑھتا ہے۔اور اسی عقیدے پر انکی شخصیت کی عمارت تعمیر ہوتی ہے۔
امریکن اکیڈمی آف چائلڈ نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ جو بچے کارٹون دیکھتے وہ بے حس ہو جاتے ہیں۔ ایسے بچے کو تشدد آمیز مناظر دیکھتے پرتششدد اور ضدی بن جاتے ہیں اور تعلیم میں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔
کچھ کارٹون اسلامی بھی ہیں۔جن میں بچوں کو اقدار سکھائیں جاتیں ہیں۔اس طرح کے کارٹون بچوں کو ضرور دکھائیں۔جیسا کہ عبدالباری وغیر ہ۔۔۔ مگر یہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔

ہمارے بچے ہمارا آنے والا کل ہی نہیں ہماری جنت اور دوزخ بھی ہیں۔انکو وہ سکھائیں جن کا اینڈ رزلٹ اچھا ہو۔۔۔جو آپ کی آخرت بناۓ نا کہ بگاڑے۔۔اللہ ہمیں عمل کہ توفیق دے۔۔آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں