مختصر کہانیاں
انمول وجود
اپنے تار تار وجود کو خود ہی سمیٹنا تھا۔بخت آور نے سوچا اور پھر سے اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔وہ جانتی تھی آگے اس نے کیا کرنا ہے۔بچوں کے لیے آٹا گوندھتی کوثر اس عورت سے بہت مختلف دکھائی دے رہی تھی جسےایک ہفتہ پہلے بیٹیاں پیدا کرنے کے جرم میں طلاق دے دی گئ تھی۔ایک نظر اپنی تینوں بیٹیوں کو دیکھا اور شکر بھری نظر آسمان پہ ڈالی۔کیا ہوا جو اس کے چاہنے والے نے اسے بے انمول کر دیا جتھا اپنی نظر میں تو وہ اب بھی انمول تھی۔ تھی جبھی تو تین انمول وجود اس کو سونپ دیے گۓ تھے۔
۔۔۔۔۔۔
جہیز نہیں جائیداد دیجیے۔
وہ چپ چاپ آسمان کو تکے جا رہی تھی جہاں تاروں بھرا آسمان اس کھلے ظلم پہ بھی خاموش تھا۔بالکل اس کی طرح۔۔ جب عورت خود ہی چپ کی بکل مارے سب سہنے کے لیے تیار رہتی ہے تو پھر آسمان کو کیا پڑی کہ وہ احتجاج کرے۔زلیخا خوداحتسابی کے عمل سے گزر رہی تھی۔اسے اپنے باپ کا یوں اسے جائیداد سے بے دخل کرنا ایک آنکھ نا بھایا تھا پر وہ کع بھی کیا سکتی۔۔ حالانکہ بہت کچھ کر سکتی تھی۔جہیز نہیں وراثت دو کی زمانہ طالب علمی کی تقریر اسے آج بھی ازبر تھی۔پر لفظ تو لفظ ہوتے خالی خولی لفظ جب تک عمل کے ترازو میں نا پروۓ جائیں۔حقیقت کہاں بنتے،حق کہاں دلاتے؟
۔۔۔۔۔۔۔
اپنے چوتھے بیٹے کی وفات پر تو اسے لگتا تھا اب وہ کبھی سانس نہیں لے پاۓ گی۔پر وہ جی رہی تھی قطرہ قطرہ زندگی۔۔۔۔
اولاد تو رب کی عطا ہوتی ہے وہ دے کے بھی آزماتا اور لے
یہ بھی پڑھیے
چھوٹی سی دعا اور تین بڑے انعام
کے بھی۔۔۔تو پھر غم کاہے کا۔الٹا صبر کا دامن تھام کے ہم اجرعظیم کے حق دار بن سکتے وہ بھی مفت کے۔۔۔قاری صاحب کے الفاظ اسے اپنے دل میں اترتے محسوس ہوۓ اور وہ ایک بار پھر زندگی کے جھانسے میں آ گئ تھی۔صبر کا دامن تھام کے سرخرو ہونا چاہتی تھی۔تھی نا بہادر عورت،بیچارگی کی بکل اتار پھینکی تھی۔
مختصر کہانیاں