309

بیوی کی تربیت کا انوکھا انداز

تحریر شئیر کریں

بیوی کی تربیت کا انوکھا انداز

‏دو ماہ سے کوئی میرے دروازے پر روزانہ کچرا پھینک کر چلا جاتا بڑی کوشش کے باوجود وہ پکڑ میں نہیں آیا

اہلیہ نے کہا کہ یقیناً یہ محلے کا کوئی ایسا
بندہ ہے جو فجر کی نماز باقاعدگی
سے پڑھتا ہوگا اور مسجد جاتے ہوئے یہ کارنامہ سرانجام دیتا جاتا ہوگا
اب مسئلہ تھا میرا اپنا
‏میں پکا نہیں کچا مسلمان تھا
روزانہ دس بجے اٹھ کر
فجر قضا پڑھا کرتا تھا
بیس دن قبل میں نے اہلیہ سے
فجر میں اٹھانے کا کہا
تو اہلیہ حیران
کہ
یہ آج سورج مشرق کے بجائے مغرب سے
کیسے نکل رہا ہے
خیر انہوں نے مجھے اگلے روز فجر کے وقت اٹھادیا
میں نے اٹھتے ہی کھڑکی سے نیچے جھانک
‏کر دیکھا تو دروازے پر کچرا موجود نہیں تھا
فٹافٹ وضو کیا
کھڑکی کے پاس ہی مصلیٰ بچھایا
اور
دو رکعت سنت کھٹاکھٹ پڑھ کر
پھر سے جھانک کر دیکھا تو کچرا دروازے پر پڑا میرا منہ چڑارہا تھا
اگلے دن پھر وہی کی فرض پڑھے اور نیند کی وادیوں میں کھو گیا۔
مگر یہ کیا پھر کچرا پھینک دیا گیا۔
‏چار دن اِسی طرح گزرگئے
لیکن کچرا پھینکنے والے کو
پکڑ نہیں پایا
پانچویں دن اہلیہ کہنے لگیں
ما شاء اللّٰه آپ اب فجر کی نماز پڑھنے لگے ہیں تو مسجد میں
باجماعت نماز پڑھ لیا کیجیے
بات دل کو لگی۔
اور
پانچویں دن سنت گھر میں پڑھ کر
جماعت سے پندرہ منٹ پہلے
دروازے پر کرسی لگا کر
‏بیٹھ گیا اور محلے کے نمازی
حضرات کو آتے دیکھنے لگا
کہ
کس نمازی کے ہاتھ میں کچرے کا شاپر ہے
لیکن افسوس سارے خالی ہاتھ آتے دکھائی دیے
نماز پڑھ کر آیا تو دروازے پر کچرا موجود نہیں تھا
ایک ہفتے مسلسل پابندی سے باجماعت نماز پڑھنے کے بعد اپنی بیگم سے بولا۔۔لگتا اب کچرا پھینکنے والا مجھ سے ڈرنے لگا ہے جبھی
کچرا نہیں پھینک رہا
اب آپ مجھے فجر کے وقت نہیں اٹھانا
اہلیہ کچھ نہیں بولیں
اگلے دن اہلیہ نے تو مجھے نہیں اٹھایا
البتہ میری خود آنکھ کھل گئی
کھڑکی سے جھانک کر دیکھا تو کچرا دروازے پر موجود تھا
ٹائم دیکھا تو فجر کا وقت تو باقی تھا
لیکن
‏جماعت نکل چکی تھی
اب اگلے دن پھر وہی معمول تھا
دو ہفتے مسلسل فجر کی نماز باجماعت پڑھتا رہا اور دروازہ صاف ستھرا ملتا رہا
دو ہفتے بعد اب میری جماعت سے فجر کی نماز پڑھنے کی عادت ہوچکی تھی
اور الحمدللّٰہ میں
با جماعت فجر کی نماز پڑھنا شروع ہو گیا
پھر کچھ دن بعد
‏رات کے کھانے میں اُس کچرا پھینکنے
والے کا ذکر آگیا
میں اُسے برابھلا کہنے لگا
بیٹا بولا
ابو آپ اُسے برا تو نا کہیں
بلکہ وہ تو آپ کا محسن ہے
جس کی وجہ سے آپ فجر کی نماز باجماعت پابندی سے پڑھنے لگے ہیں
بیٹے کی بات سن کر میرے دماغ کو
جھٹکا سا لگے
اور سب کو غور سے دیکھنے لگا
‏مجھے یوں اپنی طرف دیکھتے ہوئے
سارے ہنسنے لگے بیٹا کہنے لگا
ابو آپ کی وہ محسن اور کوئی نہیں بلکہ ہماری امی جان ہیں
آپ امی کا شکریہ ادا کیجیے
میں نے اہلیہ کو دیکھا تو کہنے لگیں
“جب گھی سیدھی انگلی سے نا نکلے
تو ٹیڑھی انگلی سے نکالنا پڑتا ہے

یہ سبق ہے سب بیویوں کے لئیے
کہ وہ
‏چاہیں تو اپنی اولاد کے علاؤہ
اپنے خاوند کی بھی تربیت کر سکتی ہیں
ہاں اگر وہ خود تربیت یافتہ ہوں۔


اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں