379

جا تیرا دل ٹوٹے

تحریر شئیر کریں

زندگی بڑی منفرد اور قدرے عجیب سی شے ہے۔کس لمحے کس روپ میں سامنے آن کھڑی ہو،پتہ ہی نہیں چلتا۔ایک بات تو طے ہے زندگی جس شے کانام ہے یہ ہر پل بدلنے والے کوئی غیر یقینی سی شے ہے۔جسے کسی پل قرار نہیں ہے۔

زندگی کے اس پہلو پہ بہت سوچا،سمندر کی گہرائی میں اتر کے جانا کہ یہ جتنی اپنی لگتی ہے اتنی ہی غیر ہے۔جتنا اس کے اندر کھبتے جاو گۓ اتنا ہی دھنستے چلے جاؤ گۓ۔ملے گا پھر وہ نہیں جس کی چاہ میں آپ دھنس دھنس کے دھنسے۔ہاں نا عجیب بات!

مجھے یہ بار بار روپ بدل کے ملتی رہی۔ہر دفعہ کسی نئ شکل میں کسی نۓ پیراۓ میں اور ہر دفعہ ہی اسے میں اپنا سمجھ کر اس کے فریب میں آتی چلی گئ۔

بھید یہ کھلا کہ زندگی کا یہ پہیہ ہر پل رواں رہتا ہے۔صرف میرے لیے نہیں بلکہ جس جس کو یہ عنایت ہوتی ہے۔ان سب کے لیے اس کے اصول یکساں ہیں بس طریقے الگ ہیں۔

جب یہ تھوڑی سمجھ آنے لگی تو چیزیں واضح ہوتی چلی گئ۔بندہ اور بندگی کا تعلق سمجھ میں آ گیا۔جس کی عنایت ہے۔وہی سب سے بڑا بھیدی ہے اس نے اپنے بندوں کو جو علم عنایت کیا وہ یہ بتاتا ہے کہ دنیا دھوکے کا سامان ہے۔جو دکھتی ہے وہ ہے نہیں اور جو نہیں ہے وہ دکھتی ہے۔اس کی سمجھ تب آتی ہے جب یہ آنکھیں بند ہونے لگتیں ہیں۔اس سے بڑی الجھن کیا ہوگی کہ جب سلجھن کا لمحہ آۓ تو چھین لی جاۓ۔
جاتے سمے ایک راز بتاؤ جو سب رازوں کا امین ہے۔مجھے کسی نے بد دعا دی تھی جا تیرا دل ٹوٹے اور اس ٹوٹے ہوۓ دل سے دنیا اور اسکی جھوٹی محبتیں بہہ نکلیں۔۔ یہ بد دعا مجھے لگ گئ۔۔ پھر ہر وہ محبت اور اسکی حقیقت میرے سامنے بے نقاب ہوتی چلی گئ۔۔۔زندگی کے اس لمحے جب بہت کچھ میسر ہے اور بہت کچھ داو پہ لگا ہے میں جان گئ۔۔۔ٹوٹے ہوۓ دل میں دنیا کہاں ٹکتی ہے۔وہاں تو ایک ہی ہستی براجمان نظر آتی ہے ۔رب سوہنے کی ہستی۔۔باقی سب بہہ چکا۔۔۔۔کناروں سے لگی مٹی بتا رہی ہے یہاں بھی گھروندے ہوۓ کرتے تھے۔خواہشوں کے گھروندے جن کے نقش پا باقی ہیں۔جو کب کے مٹ چکے۔۔۔۔

پتہ ہے دنیا جب تک دل میں رہتی ہے انسان کی امید اللہ سے نہیں جڑتی، اور یہ تب جڑتی ہے جب انسان ایک ایک کر کے کوچ کرتے چلے جائیں۔نجانے کیوں زندگی کے چالیس برس بیت جانے کے بعد مجھے یہ گیان دان کر دیا گیا کہ خواہشوں کا سمے بیت چکا ،اب تو وقت رخصت ہے۔اسی سے جڑ جاؤ ،اگر جڑ گۓ تو بقا نصیب ہوگی۔نہیں تو کناروں سے لگی مٹی کی طرح بے نام و نشاں کھڑے رہ جاؤ گے۔

مجھے بھی گوتم بدھ کی طرح تنہائی ملی تھی۔۔اور اس تنہا رات کی خاموشی میں آج پھر وہ بد دعا یا د آ رہی ہے تیرا دل ٹوٹے اور تیری امید رب سے جڑ جاۓ۔تو سوچ رہی ہوں کتنی بھلی انسان تھی وہ جس نے یہ دعا دی تھی۔جو بدعا جیسی تھی مگر اس سے بڑی کوئی دعا نہیں۔دعا ایسی لگی کہ مزہ آ گیا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں