افسانچے
عنوان:اعتارف جرم
تحریر:روبینہ شاہین
وہ آج بیوی کی قبر پہ کھڑااعتراف جرم کر رہا تھا کہ میں اونچا لمبا مرد اس لمحے پولیس کی وردی کے نشے میں مخمور گولی چلا بیٹھا تھا۔ورنہ تیرا کردار تو بارش کے قطروں کی طرح پاک تھا۔
سزا کے ڈر سے بیوی پر بدکرداری کی مہر لگانے والا وہ پہلا مرد نہیں تھا۔مگر رات بھر غائب رہنے پر شوہر سے استفسار پر قتل کی سزا پانےوالی شاید وہ پہلی عورت تھی۔
یہ بھی پڑھیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قرض
زندگی بھر وہ جس سے صلہ پانے کی توقع کرتی رہی وہ مر کر سارے قرض چکتا کر گیا تھا۔
زلیخا نے ساری عمر غربت کی چکی میں پستے کھیتوں میں دیہاڑیاں کر کے اپنے اور اپنے بچوں کا پیٹ پالا تھا۔اسے حسرت رہی کبھی تو اس کا شوہر کما کر اس کی ہتھیلی پہ پیسے رکھے گا۔پر یہ حسرت حسرت ہی رہی۔
اور آج اسے اسی شوہر کے ایکسیڈنٹ میں ہلاک ہونے پر پانچ لاکھ دیت اور گھر مل گیا تھا۔وہ حیران و پریشان نۓ گھر کی چوکھٹ پہ کھڑی سودوزیاں میں مصروف تھی۔
طلاق
وہ ششد کھڑی سٹیٹس کے ساتھ شو ہوتی تصویر کو دیکھ رہی تھی جہاں ایک عورت سامنے کیک رکھے طلاق لیے جانے پہ کیک کاٹ رہی تھی۔کیک پہ جلی حروف میں Divorceلکھا تھا۔عنایہ نے زوم کر کے اسے بارہا پڑھا تھا شاید اسے غلط فہمی ہوئی ہو پڑھنے پر،پر یہ ننگا سچا تھا مردوں کے اس معاشرے میں جہاں طلاق کے نام پر ہی عورت کا دل دہل جاتا ہے آج اتنی بے حسی کس لیے؟عمل اور ردعمل کے اس کھیل میں عورت اس انتہا تک آن پہنچی تھی کہ اب طلاقیں بھی سیلبریٹ ہونے لگیں تھیں۔