340

غلامی

تحریر شئیر کریں

غلامی کہانی ہے آزاد جسموں اور غلام روحوں کی۔۔۔

وہ بڑی خوبصورت چڑیاں تھیں۔رنگ برنگی ادھر ادھر پھدکتی زندگی سے بھر پور،

پنجرے میں دانہ ڈالتے عیان نے بڑی گہری اور ستائشی نظروں سے چڑیوں کو دیکھا اور مسکرا دیا۔

جوں جوں جشن آزادی قریب آ رہی تھی توں توں اس کاجنون بڑھتا جا رہا تھا۔وہ چاہتا تھا کہ جلدی سے چودہ اگست کا دن آئے اور وہ اپنے منفرد کو سوشل میڈیا پہ شِیر کر کے داد سمیٹے۔
آج چڑیوں کو دانہ ڈالتے عیان نے سوچا بیچاری چڑیاں بچوں کی خوشی کے لیے پنجرے میں قید کر دی گئ ہیں۔اس نے ترحم آمیز نظروں سے چڑیوں کو دیکھا جو اسھر ادھر پھدکتی پھر رہیں تھیں جیسے پنجرے سے باہر نکلنے کے لیے زور لگا رہی ہوں۔


عیان علی کو یہ چڑیاں اس کے چچا نے گفٹ کی تھیں۔گیارہ سالہ عیان انھیں دیکھ کر بہت خوش تھا پر اپنے دل کا کیا کرتا جو ان کو پنجرے میں بند دیکھ کر کڑھتا رہتا تھا ۔

بالآخر یوم آزادی آن پہنچا تھا۔ٰعیان علی کی آنکھ آج جلدی کھل گی تھی۔وہ جلدی سے بیڈ سے اترا موبائل اٹھایا اب اگلی باری موبائل کو سیٹ کرنے کی تھی جو اصل کام تھا۔موبائل سیٹ کرنے میں اسے آدھا گھنٹہ لگ گیا۔بالاخر وہ اس پوائنٹ پہ موبائل سیٹ کرنے میں کامیاب ہو ہی گیا جہاں سے لان پنجرہ اور وہ خود موبائل کی رینج میں ٹھیک سے آ سکیں۔
وہ پون گھنٹے کی محنت سے اپنے منفرد آئیڈیے والی ویڈیو ریکارڈ کر کے اپنے سوشل میڈہا اکاونٹس پہ اپ لوڈ کر چکاتھا۔


عیان بہت خوش تھا اس کے منفرد آئیڈیے کو لائیک مل رہے تھے انھیں سراہا جا رہا تھا۔مزہ آگیا جشن آزادی کا۔۔۔۔عیان نے انسٹا گرام پہ اپنا آخری سٹیسٹس لگایا اور پھر ایک بھر پور نیند کی آغوش میں چلا گیا۔

عیان چڑیاں اور یوم ْزادی میں ایک چیز اور بھی تھی جو آئیڈیا سرچ کرنے سے لے کر ویڈیو اپ لوڈ کرنے اور جشن آزادی منانے تک سب سے زیادہ پیش پیش رہی جی ہاں وہ عیان کا موبائل تھا جو سائیڈ ٹیبل پہ چارجنگ پہ لگا اگلے دن کے لیے تیار ہورہا تھا۔میرا سوال ہے کیا عیان اور ہم سب اس موبائل کے غلام نہیں جس کے بغیر ہمارا ایک پل نہیں گزرتا۔مجھے توں یوں لگتا پرندے آزاد اور ہم ان گیجٹس کو لیے پنجروں میں غلامی کی زندگی بسر کر رہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں