دشت لیلی کے شہید سرخرو ہوگے۔جانیے قلم کتاب پر
دشت لیلی کے شہید یقینا آج سرخرو ہوگیے کابل کی فتح درحقیقت ان شہیدوں کے لہو سے رقم ہوئی جنہیں 2001میں بڑی بے دردی کے ساتھ کنٹینروں میں بھوکا پیاسا رکھ کر شہید کر دیا گیا۔اور پھر دشت لیلی میں اجتماعی قبر میں ان تیرہ سو شہیدوں کو دفن کر دیا گیا۔
دشت لیلی کے شہداء کا واقع انسانی بربریت وحشت اور حیوانیت کی بدترین مثال ہے۔ہلاکو خاں اور چنگیز خان کے چیلوں نے ہر دور میں ایسے واقعات رقم کیے ہیں۔یقینا ہلاکو خان ہر دور کا استعارہ رہا ہے اور رہے گا۔
کہا جاتا ہے کہ امریکہ اور اس کے حامیوں نے ط ا ل ب ا ن پر حملہ کر دیا۔یوں مزار شریف پر دس ہزار ط ا ل ب ا ن نے ہتھیار ڈال دیے۔ان کو ہتھیار ڈالنے کے لیے قرآن پہ ہاتھ رکھ کر جنرل رشید دوستم نے قسمیں کھائیں اور وعدہ کیا کہ ان کو نکال لیا جائے گا مگر ایسا نا ہوا۔
جنرل حمید گل کا افغانستان میں کردار
۔۔کنٹینروں میں بند ط ا ل ب ا ن کو تین دن تک بھوکا پیا سا رکھا گیا اور نہتے بھوکوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی گی۔جس کی گواہی جرمنی کی اس۔رپورٹر نے بھی دی ہے وہ کہتا ہے کہ میری گاڑی ان کنٹینروں کے پیچھے تھی اور راستہ خون سے لت پت تھا۔زیادہ ط ا ل ب ا ن کنٹینروں میں دم توڑ گیے۔جو بچ گیے ان پہ فائرنگ کی گی اور جو اس میں سے بھی بچ نکلے انھیں دشت لیلی میں زندہ درگو کر دیا۔گیا۔
دشت لیلی بدعہدی کی داستان ہے۔دشت لیلی بکنے والوں کی داستان ہے دشت لیلی سرخرو ہوجانے والوں کی داستان ہے اور دشت لیلی اپنے وقت کے ہلاکو خان کی داستان ہے جو آج دم دبا کر بھا گ رہا یے۔
آفغانستان کی فتح دشت لیلی کے شہیدوں کے نام جن کے خون کی سرخی سے آج یہاں ط ا ل ب ا ن پھر سے اقتدار میں آ ئے ہیں۔انھوں نے ماضی میں بہت کچھ گنوایا اور ان کی نئ حکمت عملی جس میں انتقام کی بجائے معافی کے جزبات پوشیدہ ہیں یقینا انھوں نے ماضی سے سیکھا ہے۔وہ اب مزید کھونا نہیں چاہتے۔۔۔ہم ان کی سربلندی کے لیے دعاگو ہیں۔
دشت لیلی کے شہید سرخرو،آج کی فتح ان۔شہیدوں کے نام