خواتین پر تشدد کیا صرف تعلیم کی عد دستیابی سے ہوتا ہے یا معاملہ کچھ اور ہے جانیے قلم کتاب پر
عورت پر تشدد اس مہذب دنیا کا وہ ناسور ہے جو آج تک ہوتا چلا آ رہا ہے حالانکہ دنیا کہاں۔سے کہاں تک جا پہنچی مگر افسوس کہ مرد کے دماغ سے ظلم و تشدد کے اس خانے کا علاج نا کر سکی جس کے باعث وہ عورت پر تشدد کرتا ہے
عورت پر یاتھ اٹھانا ہی تشدد نہیں بلکہ اسے نفسیاتی ٹارچر کرنا اس سے کہیں بڑا تشدد ہے آج کے دن کا مقصد خواتین کے اس تشدد کے خلاف آواز اٹھانا ہے تاکہ خواتین کو اس سے بچایا جا سکے
ایک سوال میرے دماغ میں ہلچل مچا رہا ہے کہ مرد عورت پہ ہاتھ کیوں اٹھاتا ہے؟حالانکہ وہ اسی عورت کے بطن سے جنم لیتا ہے اسی عورت کے ہاتھوں پرورش پا کر بڑا ہوتا ہے مگر مردانگی نکلتی بھی تو کہااس بیچاری عورت پر جو اسے اس دنیا میں لانے اور سردوگرم سےبچانے کا باعث بنی
مرد عموما بیویوں کو زدوکوب کرتے ہیں جو ان کے بچوں کی ماں ہوتی ہے اور پھر اسی اولاد کی نظروں سے ہمیشہ کے لیے گر جاتے جس پہ بڑا ناز ہوتا ہے
25 نومبر کو خواتین پر تشدد کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے جس کا آغاز 1999 میں ہوا تھا اور ہر سال منایا جاتا ہے مجھے سمجھ نہیں آتی اگر دن منانے سے مسئلہ حل ہوتا ہے تو پھر ہر چھ میں سے ایک عورت تشدد کا نشانہ کیوں بن رہی ہے
تشدد اگر کم پڑھے لکھے یا اجڈ کرتے ہیں تو پھر ترقی یافتہ ممالک میں یہ سب کیوں ہوتا ہے سوچیے زرا کیا اس کا تعلق تعلیم سے ہے یا کچھ اور ہے جو دکھ نہیں رہا
جی ہاں اس کا تعلق انسانیت سے ہے خوف خدا سے ہے عورت کی عظمت و تکریم سے ہے جو عرب جیسی اجڈ اور وحشی قوم بھی نبی کریم صل اللہ والہ وسلم کی زیر تربیت اییی نکھری کہ نکھرتی چلی گئ۔تعلیم تھی تربیت تھی یا پھر دونوں جو بھی تھا آج اس بھٹکی ہوئی روحوں کو وسیا ہی سبق ویسی ہی تعلیم ویسی ہی تربیت ویسے ہی معلم چاہیے جو انسانوں کو کچھ نا سکھائیں بس انسانیت سکھا دیں۔
خواتین پر تشدد