لہو کی چیخ ایک سچی کہانی
لہو کی چیخ
✒️: ماوراء زیب
(پہلی چیخ)
گاڑیوں کے شور میں اس بکھرے لہو کی چیخیں دبتی جارہی تھیں۔ بھانت بھانت کی بولیوں کے درمیان ایک نوجوان وجود دم توڑچکا تھا۔ سب کو اس کے والدین کا دکھ یاد آرہا تھا، ان کی محنت یاد آرہی تھی لیکن کسی ایک کو بھی اس لہو کی وحشت، ان مردہ خیالات کی الجھن نظر نہیں آرہی تھی اور آتی بھی کیسے،،،،،،؟ اس کے لیے تو دل میں جھانکنا پڑتا ہے اور اتنا وقت کس کے پاس ہے۔ ایک وقت ہی تو نہیں ہے کسی کے پاس۔ بس قربان کرنے کے لیے خواہشات ہیں، خیالات ہیں اور دل،،،،، دل کا کیا ہے وہ تو بس گوشت کا ایک لوتھڑا ہی تو ہے۔
حامد اپنے ماں باپ کا دوسرے نمبر کا بیٹا تھا۔ اس کے تین اور بہن بھائی موجود ہیں مگر یہ تو معاشرے کا چلن ہے جو بچہ معاشرے کے قائم کردہ لائقی کے پیمانے پر پورا اتر جائے اس سے امیدیں وابستہ کر لی جاتی ہیں۔ جو بچہ بچپن سے ہی ہر کلاس میں پہلے نمبر پر رہے، اس سے یہی توقع کی جاتی ہے کہ وہ ہمیشہ پہلے نمبر پر رہے گا اور ڈاکٹر کی سیٹ تو خودبخود اس کے لیے پکی ہوجاتی ہے۔ اور رہی بچے کی خواہش، اس کا کیا ہے۔بچے تو ناسمجھ ہوتے ہیں الٹا سیدھا سوچتے ہی رہتے ہیں، کرنا تو وہی ہے جو والدین نے سوچ لیا ہے کیونکہ والدین تو کبھی بھی اپنی اولاد کے لیے غلط نہیں سوچتے۔ پھر چاہے والدین بچوں کو مشین بنائیں یا انسان وہ تو کبھی غلط ہوتے ہی نہیں۔
بس یہی عام سی کہانی حامد کی بھی تھی۔ میٹرک میں اس کی تیسری پوزیشن آئی تھی۔ والد کی خواہش تھی انٹر میں بھی بورڈ میں پوزیشن آئے جس کی وجہ سے اس پر کافی سختی کردی گئی تھی اور پڑھائی کے علاوہ اس پر زندگی کا ہر رنگ بند تھا۔
اس کے دوست ان سب حالات سے واقف تھے پر پھر بھی وہ چاہتے تھے کبھی کبھی حامد بلا بھی پکڑ لے کیونکہ وہ کرکٹ کے میدان میں بھی کامیاب تھا، وہ چایتے تھے حامد تلاوت کے مقابلے میں حصہ لے کیونکہ اس کی قرأت خوبصورت تھی لیکن اب اس کی اجازت نہ تھی۔ اسے نماز کے لیے مسجد تک جانے کی اجازت نہیں تھی کہ کہیں دوستوں کے ساتھ وقت ضائع کرنے کھڑا نہ ہوجائے۔ گھر میں ہی جماعت کروادی جاتی تھی۔ بارہویں کے امتحانات اختتام پذیر ہوئے تو اسے اجازت ملی تھی گھر سے باہر جانے کی۔
آخرکار وہ دن بھی آگیا جب نتائج سے حامد کا سامنا ہونا تھا۔ حامد بازار میں گزٹ کی دکان کے سامنے کھڑا دکان کو تَک رہا تھا، پر اس کے پاؤں نجانے کیوں زمین سے چپک گئے تھے۔ اس مصروف سڑک پر حامد ایک مجسمے کی مانند معلوم ہورہا تھا۔ ایسا مجسمہ جسے صرف باہر سے پرکھا جاسکتا ہے لیکن اس کے اندر جھانکنے کی فرصت ان کے پاس بھی نہیں جو اسے اس دنیا میں لانے کا وسیلہ بنے۔
پیچھے گاڑیوں کا ہجوم شور کرتا ہوا اپنی اپنی منزلوں کی طرف رواں دواں تھا لیکن حامد کے دماغ میں چلتے خیالات کی کوئی منزل ہی نہ تھی۔ پھر ایسا ہی تو ہوتا ہے کہ جہاں منزل کا تعین نہ ہو وہاں عموماً راہی بھٹک جاتے ہیں، اندھیرے راستوں میں گم ہوجاتے ہیں۔ حامد کو اپنے والد کا سخت لہجہ یاد آرہا تھا، اسے اپنی ماں کی دھمکیاں یاد تھیں کہ اگر وہ اچھے نمبروں سے پاس نہ ہوا تو اسے استاد جی کی دکان پر بٹھا دیا جائے گا۔ حامد نے استاد جی کو صرف مارتے ہوئے اور گالیاں دیتے ہوئے دیکھا تھا۔ انہیں شاید کسی نے آرام سے بولنا سکھایا ہی نہ تھا۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کو ان کے والدین گاڑیوں کا کام سیکھنے استاد کی دکان پر چھوڑ گئے تھے اور استاد جو اولاد نہ ہونے کی وجہ سے”استاد“ بن بیٹھا تھا، اپنی اولاد نہ ہونے کا بدلہ ان بچوں سے لیا کرتا تھا۔ حامد پڑھائی میں بہت اچھا تھا پھر بھی نجانے کیوں اس کے والدین نے اسے استاد سے ڈرا دیا تھا۔
والدین سمجھتے ہیں کہ جب تک بچے کو ڈرایا نہ جائے تب تک تربیت مکمل ہی نہیں ہوتی۔ بچوں کی نفسیات کے ساتھ اتنا کھیلنے کی اجازت تو ہمارا مذہب نہیں دیتا پھر یہ معاشرے کے کون سے وضع کردہ قانون ہیں۔
حامد کا ذہن ان پراگندہ خیالت میں ہی الجھا ہوا تھا کہ اس کے دوست ابرار نے اسے آواز دی۔
”حامد یار ایک مضمون میں رہ گیا ہے تو ارے اتنا گھر میں بند رہا کیسی تیاری کی تھی تو نے“۔
ابھی ابرار اپنے دوست کو مزید چھیڑنا چاہتا تھا، اسے تنگ کر کے بتانا چاہتا تھا کہ اس کی دوسری پوزیشن آئی ہے لیکن مذاق میں بولا گیا جھوٹ ان تمام پراگندہ خیالات کو حامد کے سامنے مجسم کرتا گیا جن کی کوئی منزل ہی نہ تھی۔ اس ساکت وجود میں جنبش ہوئی، گاڑیوں کے ٹائر چرچرائے اور ایک وجود سے چیختا لہو اپنی ناقدری پر ماتم کناں تارکول کی بوسیدہ سڑک پر نکل کر پھیلتا چلا گیا۔ ابرار کے الفاظ اس کے منہ میں رہ گئے نجانے اس کی سماعت کیسے کام کرگئی کہ اسے حامد کے لہو کی چیخیں سنائی دینے لگیں اور وہ وہیں اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ کر گرتا چلا گیا۔
کرادر فرضی ہیں مگر یہ واقعہ سچ پر مبنی ہے جو معاشرے کی ایک تلخ حقیقت کو عیاں کررہا ہے۔
لہو کی چیخ