1,028

کہانی کیسے لکھیں ؟

تحریر شئیر کریں

کہانی کیسے لکھیں؟

تحریر : لبنٰی جمشید

کہانی کیسے لکھیں؟ لکھنے سے پہلے ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ کہانی کہتے کسے ہیں؟ک اس سلسلے میں ماہرین مختلف آرا رکھتے ہیں۔۔

محمد افضل رضا اپنی کتاب ’’افسانہ تحقیق و تنقید میں‘‘ کہانی کے بارے میں کچھ یوں تحریر کیا ہے

’’ابتدا میں اگر انسان اپناحال احوال الفاظ کی صورت میں اپنے دوستوں کو نہ بیان کر سکتا ہو، تو ہو سکتا ہے کہ انہوں نے اشاروں سے کام لیا ہو۔ اپنا تجربہ و مشاہدہ اور واردات، اشاروں کی زبان میں بیان کیے ہوں جس سے کہانی کی ابتدا ہوئی۔‘‘

ڈاکٹر انور سدید کہتے ہیں کہ” اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ افسانہ بنیادی طور پر کہانی کہنے کا فن ہے اور جب ’’کہانی کہنے‘‘ کی بات کی جاتی ہے، تو اس صنف کو قدیم ترین تسلیم کرنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔‘‘

اس سے پتہ چلتا ہے کہ کہانی کی تاریخ کس قدر پرانی ہے شاید اتنی پرانی جتنی کہ انسان کی زندگی کی ابتدا ہے۔ جب اس نے بولنا شروع کیا اور اپنی بات دوسرے انسان تک پہنچانے کے لیے الفاظ کا سہارا دیا۔ اس وقت ہی کہانی کی ابتدا ہو گئی ۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے لوازمات میں اضافہ ہوتا گیا اور اب کہانی لکھنا یا سنانا باقاعدہ ایک صنف کی حثیت اختیار کر چکا ہے۔

بحوالہ قرآن

اگر ہم قرآن پاک کی سورتوں پر غور و فکر کریں تو ان کے اندر بہت سی قصے کہانیاں پنہاں ہیں۔ جیسے مثال کے طور پر حضرت یوسف کا قصہ جسے احسن القصص بھی کہا گیا ہے اس کے علاوہ حضرت مریم , حضرت نوح اور بہت سے پیغمبروں اور قوموں کی سبق آموز کہانیاں نظر آئیں گی۔ اس سے بتہ چلتا ہے کہ کہانی کا ہمارے مذہب کے ساتھ بھی ایک گہرا رشتہ ہے۔ دنیا کی سب سے مکمل کہانی ہمارے پاس قرآن کی صورت میں محفوظ ہے۔

کہانی لکھنے کی ابتدا کیسے ہوئی؟

دنیا کے آغاز میں آدم اور حوا کا ذکر ملتا ہے ۔ ان کی جدوجہد اور زمین کو آباد کرنے کے سلسلے میں جو واقعات قرآن میں قلمبند ہوۓ ہیں وہی اس دنیاکی پہلی کہانی ہے۔

کرنٹ اوورٹین اپنی مشہور تصنیف
The philosophise of fiction
میں لکھتے ہیں کہ کاغذ کی ایجاد سے قبل بھی کہانیاں درختوں کے پتوں پر لکھی گئی انہیں Tale of magicians
کا نام دیاگیا ہے۔
پھر رفتہ رفتہ انسان نے اپنے دماغ میں آنے والے خیالات کو قلم کے زریعے کاغذ پر بکھیرنا شروع کردیا۔

کہانی اور افسانے میں فرق

کہانی لکھنے سے پہلے ہمیں کہانی اور افسانے کے فرق کو سمجھنا ہوگا۔ کہانی اور افسانے میں سب سے واضح فرق لوازمات کا ہے ۔ ہم ایسے کہہ سکتے ہیں کہ ایک افسانے کے اندر کہانی موجود ہوتی ہے جو مصنف ہمیں سناناچاہتا ہے مگر ایک کہانی اپنے اندر افسانہ نہیں سمو سکتی۔ کہانی واقعات کے تسلسل پر لکھا وہ واقعہ ہے جو بیانیہ انداز میں لکھا جاتا ہے اور اس کے آخر میں ایک واضح مارل موجود ہوتا ہے۔ جو افسانے اور کہانی کا فرق بتاتا ہے

سوچ اور مشاہدہ

کہانی لکھنے سے پہلے انسان کو اپنی سوچ کا کینوس وسیع کرنے کی ضرورت ہے ۔ وہ کیا سوچتا ہے اس کے اردگرد رہنے والے افراد کی سوچ ان کے ساتھ بیتے واقعات ان کا مشاہدہ کرنے کے لیے جو دیدہ بینا چاہیے اس پر مکمل گرفت ہونی چاہیے تب ہی انسان ک ذہن میں ایک منفرد کہانی اپنی بنت بننا شروع کرتی ہے۔

کارلس ونٹلن لکھتے ہیں کہ ایک اچھا کہانی کار مشاہدے کی آنکھ سے لکھتا ہے۔

مثال کے طور پر سڑک پر ایک سخص بھیک مانگ رہا ہے اور وہاں کھڑے بہت سے لوگ اس کو دیکھ رہے ہیں۔ اب ہر انسان کے دیکھنے کا انداز مختلف ہو گا۔ یہی قوت مشاہدہ ہے جو کہانی کار کو دوسرے لوگوں سے ممتاز کرتا ہے۔

کالم کیسے لکھیں؟

کہانی کا پلاٹ

مشاہدے کے بعد کہانی کا پلاٹ خاصا اہمیت کا حامل ہے ۔ ایک مضبوط پلٹ ہی کہانی کی جان ہوتا ہے۔ ہم پلاٹ کو انگریزی کی ایک اصطلاح Road map سے اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ ذہن میں وہ نقشہ جو ابھی تک قلم کے زریعے کاغذ پر نہیں اتارا گیا۔ مثال کے طور پر ہم نے مکان تعمیر کروانا ہے ہمارے پاس خالی پلاٹ ہے اب یہ ہماری سوچ کہ کتنے کمرے ہوں کچن اور واش رومز کی جگہ کہاں پر ہونی چاہیے ان کا اپنے ذہن میں اندازہ قائم کرنا کہانی کا پلاٹ کہلاتا ہے ۔اب اس پر عمارت کھڑی ہونا باقی ہے جو ہمارے تخیل سے ہوگی۔

کہانی کےکردار

پلاٹ کے بعد کہانی کے کرداروں کا جائزہ لیا جاتا ہے عام طور پر کہانی میں زیادہ کرداروں کی بھیڑ بھاڑ نہیں رکھی جاتی۔ چونکہ ایک واقعہ کو قرطاس قلم کرنا ہوتا ہے اس لیے وہی کردار جو اس قصے ک اندر فٹ ہوں کہانی کے کردار کہلائیں گے۔

کہانی کا عنوان

جب کہانی کا لاٹ ہمارے دماغ میں آتا ہے تو اس مرکزی خیال اور پلاٹ کی بنیاد پر ہی کہانی کو ایک مناسب سا عنوان دیا جاتا ہے۔ جیسے لالچ بری بلا ہے , غریب لکڑہارا , نیک بادشاہ وغیرہ وغیرہ

عنوان ایسا ہونا چاہیے کہ جس کو پڑھ کر کہانی کی طلب میں اضافہ ہو ناکہ قاری صرف عنوان پڑھ کر کہانی کو مسترد کردے۔
میں نے ایک بھکاری والے پلاٹ کی جو مثال دی اس کے مطابق میں عنوان ”گرگٹ“ رکھوں گی۔

کہانی کی ابتدا

کہانی کی ابتدائی چند سطور ہی ایک قاری کو پوری کہانی پڑھنے پر مجبور کرتیں ہیں اس لیے آغاز ایسا کریں کہ جو قاری کو اپنی گرفت میں لے لیں اور وہ مصنف کے قلم کے دھارے میں آخری حرف تکبہتا چلا جاۓ ۔ کہانی کا آغاز ضروری نہیں ہے کہ تجسس سے کیا جایا۔ میرے ذاتی خیال کے مطابفق کہانی کا آغاز ایک ٹرننگ پوائینٹ سے کرنا چاہیے۔۔ جیسا میں نے بھکاری کی مثال دی کہ وہ سڑک سے گزر رہاہے اور مختلف لوگ اسے مانگتادیکھ رہے ہیں ۔ یہ ایک آغاز سمجھ لیں۔ لوگوں کی راۓ اس کے بارے میں یہ ہے کہ وہ ایک نابینا شخص ہے اور اس کی مدد عین عبادت ہے۔

کہانی کا کلائمکس یا نقطہ عروج

کہانی کیسے لکھیں؟کہانی کا نقطہ آغاز کی طرح نقطہ عروج بھی قابل گرفت ہونا چاہیے۔ اکثردیکھا کیا ہے کہ کہ ایک شاندار آغاز کے بعد کہانی کی گرفت کمزور پڑھ جاتی ہے۔ اس کی مضبوطی ہی اچھی کہانی تخلیق کر سکتی ہے۔

”بھکاری کے چہرے پر یاسیت ہے وہ اپنے کشکول سے سکے نابینا انگلیوں سے چھو کر تسلی کرتا آگے بڑھتا ہے ۔۔لوگ اپنے رب کاشکر ادا کر رہے ہیں کہ اللہ نے انہیں مکمل بنایا ہے“

الفاظ کا چناؤ

کہانی کا انداز بیان سادہ ہوتا ہے اس میں ضحیم و گہرے الفاظ استعمال نہیں کیے جاتے ۔ مناسب افاظ کے اتار چڑھاؤ سے بات مکمل ہوتی ہے۔

منظر نگاری

کہانی میں موقع کی مناسبت سے منظر نگاری بیانیہ کو مذید خوبصورت بنتی ہے مثال کے طور پر
” اچانک تیز بارش شروع ہو گئی سب لوگ دکانوں کے شٹر کے اندر پناہ کے لیے چلے گےلیکن وہ بھکاری بارش سے بے نیاز صدالگاتا بھیگتا چلاجا رہاتھا لوگوں نے ترحم نظروں سے دیکھا۔“

کہانی کا اختتام

کہانی کو سمیٹ کر اس کا اینڈ ہمیشہ چونکا دینے والا اور سبق آموز ہونا چاہیے۔ اس کو اس طرح لکھنا چاہیے کہ وہ کہانی مدتوں یاد رکھی جاۓ ۔ ہم بھکاری کی کہانی کا اختتام یوں کریں گے۔

” وہاپنے اوپری لباس کو جسم سے جدا کرتا تیز قدموں چلتا ایک کار کے قریب رکھا ۔ دکانوں سے جھانکتی آنکھوں کو دیکھتے بڑے مزے سے چابی گھما کر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا اور زن سے گاڑی بھگا کر لے گیا۔ بارش مسلسل ہو رہی تھی اور نابینا بھکاری کا چیتھڑا نما لباس ہوا سے اڑ رہا تھا

بقول ایک شاعر

کہانیاں میرے اندر جنم لیتی رہتی ہیں
میں اسے کاغذ پر اتار کر امر کر دیتا ہوں

کہانی کیسے لکھیں؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں