کچن اکیڈمی۔۔۔
(گھریلو خواتین کے نام)
آسیہ عمران
سب کو کھانے پر اصرار کرتی وہ خاتون علم و دانش کا سمندر ہوں گی، سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔
یہ ایک درس کی دعوت تھی۔ خاتون خانہ سے ملاقات درس کے بعد ہوئی۔ چند منٹ کی گفتگو گویا لعل و جواہر سے بھرپور تھی۔
پوچھا تعلیم کہاں سے حاصل کی۔
مسکراتے ہوئے بولیں کچن اکیڈمی سے۔
یہ ادارہ کہاں ہے؟
ان کی مسکراہٹ کچھ اور گہری ہوگئی۔
جواب تھا۔ “ہر گھر میں موجود ہے.”
میں سمجھ نہیں پا رہی تھی۔
اشتیاق بھرے انداز پر جیسے انھیں پیار آیا۔
میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے بولیں۔
کہانی لمبی ہے اور آپ کو جانے کی جلدی، کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں.
اگر آپ کی کوئی مصروفیت نہیں تو آج ہی، اس وقت آپ کے جواب سے ذیادہ کچھ قیمتی نہیں۔ لمحوں میں معمولات کی ترتیب بدل ڈالی تھی۔
ایک لمبا سانس لیا اور بتانا شروع ہوئیں۔
میٹرک کے بعد ہی میری شادی ہوگئی۔اعلی تعلیم کے حصول اور کچھ خاص کرنے کے سارے ارادے ٹوٹ سے گئے تھے۔
چند سالوں میں اوپر تلے کے چار بچے، گھر، شوہر، بڑا خاندان ہی ایک مکمل گھیرے رکھنے والی دنیا تھی۔ کچھ ہی عرصے میں عجیب چڑچڑا پن طبیعت میں در آیا۔
اندر ایک بے چینی سی تھی۔ جن کاموں میں مصروف تھی یہ سب ضروری تھا۔ لیکن اندر خالی پن تھا، کچھ ایسا تھا جو مجھے کرنا چاہیے تھا اور میں نہیں کر پا رہی تھی۔
گھر میں خواتین کے موبائل فون رکھنے کا رواج تھا نہ حالات اجازت دیتے تھے۔
میکے میں ابا کی لائبریری واحد ذریعہ تھی جو میری بے چینی سمیٹ سکتی تھی۔ معمولات میں مطالعہ کے لیے وقت ہی نہیں تھا۔
لیکن کچھ تو کرنا ہے طے کر لیا تھا کہ اس کیفیت کے ساتھ رہنا ناممکن تھا۔
مستقل سوچنے سے ایک دھندلی سی راہ بنی، مشکل تھی لیکن راستہ تو نکالنا تھا۔
اگلے ہی دن ساس امی سے کہا آئندہ کے لیے کچن صرف میں سنبھالوں گی۔ وہ حیران ہوئیں۔ کہا سوچ لو بچوں کے ساتھ یہ سب آسان نہیں ہوگا۔
دراصل میں ایک ہی ذمہ داری مستقل لے کر اسے مینیج کرنا چاہتی تھی۔ نندیں، دیورانیاں حیرانگی کے ساتھ خوش بھی ہو گئیں۔
اب مجھے اپنے لحاظ سے چیزوں کو ترتیب دینا تھا۔ کچن کے سامنے کی جگہ بچوں کی دلچسپی کی چیزیں اکٹھی کر دیں۔
ایسا کیا طریقہ ہو کہ سالن کم سے کم وقت میں بنایا جا سکے۔ ایک سہیلی سے مشورے پر قیمتی نکات ہاتھ آئے۔ کچھ امی اور ساس کے تجربوں نے سکھایا۔
سیٹنگ کے بعد کی حیرت بجا تھی کہ سالن بنانا تو صرف آدھے گھنٹے کا کام تھا۔
ایک اور احساس بھی ہوا گھر کا یہ گوشہ پر سکون، سوچ و بچار، دل کا غبار نکالنے کی مناسب ترین جگہ تھا۔
ابا کو فون کیا کچھ بکس بھجوا دیں۔ انھوں نے دو کتابیں مختصر بخاری اور خطبات دوسرے ہی دن بھائی کے ہاتھ بھجوا دیں۔
اللہ کا نام لے کر دونوں کتابیں پڑھنا شروع کر دیں۔
کچن میں بکس پڑھنا کیسے شروع کیں؟
میری حیرانگی بجا تھی۔ کہنے لگیں، سامنے بک کھول کر رکھ لیتی۔ ایک دو لائینیں پڑھ کر سبزی کی کٹنگ کے دوران جملے دہراتی اور انھی پر غور کرتی، سوچتی. ہاتھ کام میں اور نگاہ اور سوچ کتاب پر مرتکز ہوتی. شروع میں سالن اور روٹیاں بھی جل جاتیں. پڑھنے کی رفتار بھی بہت آہستہ تھی. کچھ گھر والوں سے جھجھک بھی تھی. بخاری کی دس احادیث اور خطبات کے دو اسباق پڑھنے میں پورا مہینہ لگا۔
کتابوں کی حالت بھی کچھ اچھی نہ تھی۔
اس مختصر اور پر مشقت مطالعہ سے کیا اخذ کیا، بتا نہیں سکتی. اتنا سمجھیں کہ عمل کی راہیں کھلیں اور سوچوں کو بنیاد مل گئی تھی۔
اس دوران گھر والے بھی متجسس ہوئے یہ کیا پڑھتی ہے. باتیں بھی بہت ہوئیں، منفی جملے بھی سنے. وقتی طور پر دل بھی دکھتا لیکن اس سفر کو جاری رکھنا ہے میں فیصلہ کر چکی تھی۔ کچھ سیکھنے کی طلب مزید بڑھ گئی تھی۔
اپنی طبیعت میں مثبت تبدیلی یہ آئی کہ خوش مزاجی رخصت ہوتے ہوتے لوٹ آئی۔ بچوں کو ہر تھوڑی دیر بعد کچھ کھلا پلا دیتی، وہ کھیلتے کودتے، چھلانگیں لگاتے، کبھی ورک پھاڑ دیتے۔
بچاؤ کے اقدام میں پرانی کاپیاں پینسل کلرز قریب رکھ دیے، حملوں میں کچھ افاقہ ہوا۔
اب کسی بھی جگہ ہوتی کتاب ہاتھ میں اور بچے اردگرد ہوتے۔
اگلی بار ابا کی لائبریری سے کلیات اقبال اور دعاؤں کی کتاب اٹھا لائی۔ اب میری پلاننگ میں مزید بہتری آئی۔
جب مکمل توجہ کھانے کی طرف یا کسی بھی کام کی طرف ہوتی، آیت، دعا، شعر، کسی لفظ کا ترجمہ زیر لب دہراتی رہتی۔
جو جملہ دعا یا آیت یاد ہوتی اس پر ٹک لگا دیتی۔ پیراگراف پڑھ کر جو سمجھ آتا کتاب پر ہی ایک جملے میں نوٹس لکھ دیتی۔ یہ نشانات نوٹس روز ہی میرا حوصلہ بڑھاتے۔
ڈیڑھ سال یہی معمولات گرتے پڑتے جاری رہے۔ دو بچے اسکول داخل ہوگئے۔ اب کچھ مرحلے آسان ہوئے تھے تو نئے مراحل درپیش تھے۔
بچوں کو ٹیوشن کے بجائے خود پڑھانا شروع کیا۔ یہ سیکھنے کا ایک اور مرحلہ تھا۔
ایک سہیلی نے مشورہ دیا مطالعہ کا وقت نہیں نکل پا رہا تو موبائل لے لو، آڈیو کتابیں اور لیکچر سنا کرو ۔اس سے آسانی ہو جائے گی۔
گولڈ کی انگوٹھی بیچ کر موبائل لے لیا۔ معلوم تھا میاں سے تقاضا کرنے پر پڑھنے کا عمل میں خطرے میں پڑ جائے گا۔
سو اپنی مدد آپ کے فارمولے پر عمل کیا۔موبائل لینا اس سفر کا انقلابی قدم تھا۔
علماء کرام، مختلف اساتذہ اب میری دسترس میں تھے. میری خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا۔ ایک سہیلی نے ایک عالم کا رابطہ نمبر بھی دے دیا۔ اب ایک ایک لیکچر کئی بار سنتی. جو سوال اٹھتے استاد محترم کو میسج کر دیتی، اب باتیں سمجھ آنے لگی تھیں۔
انھی دنوں کسی لیکچر میں امام غزالی کی تحصیل علم کا ایک واقعہ سنا، آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔
تحصیل علم کی جستجو کا اشتراک ان سے خاص نسبت کا سبب بنا۔ ذخیرہ الفاظ میں دن بدن اضافہ ہونے لگا۔
ان مصروفیات میں کچن ایک اکیڈمی بن گیا تھا. اس کی گرمی مجھے گرمی محسوس نہ ہوتی۔
کھانے میں مہارت کے ساتھ اللہ نے خاص ذائقہ بھی ڈال دیا۔
زیادہ پکانا اب میرے لیے کوئی مسئلہ نہ تھا کہ کان سنتے، آنکھیں کھانے پر اور دل جذب کرنے میں مگن ہوتا۔
ہر دن نئی تازگی اور سرشاری لیے آتا۔
اس دن تو خوشی کی انتہا نہ رہی۔ کلاس ون میں پڑھنے والے بچے کی کلاس ٹیچر نے بلا کر کہا۔ آپ کا بچہ اردو زبان میں ذخیرہ الفاظ کے لحاظ سے باقی بچوں سے بہت آگے ہے اور دینی معلومات بھی، یقینا آپ بہت محنت کرتی ہوں گی۔ اب اس کی انگلش پر بھی ایسی ہی توجہ دیں۔
میں تو ایسی کوئی خاص توجہ نہیں دے رہی تھی ۔
غور کرنے پر معاملہ سمجھ آیا کہ جو لیکچر میں سنتی تھی۔ مجھ سے کہیں ذیادہ بچوں پر اثر ڈال رہے تھے۔ ان کے ذہن کی شفاف تختی پر گہرے نقوش بن رہے تھے۔
جذبے کچھ اور بڑھ گئے۔
ایک اور خوشگوار تبدیلی پر تو میں سجدے میں جا گری۔
ساس امی بھی اپنا پیڑھا وہیں لے آئیں۔ نہ صرف کھانا بنانے بلکہ بچوں کو سنبھالنے میں بھی غیر محسوس معاونت حاصل ہوگئی۔
اس سے اگلے ہفتے ایک چھوٹا سا اسپیکر آگیا اب آواز ذیادہ واضح ہوتی۔
ساس امی درمیان میں سوال کیا کرتیں۔ میری توجہ لیکچر پر مزید بڑھ گئی۔ ان کو آسان زبان میں سمجھانے سے بولنے کی مہارت بھی نکھرنے لگی۔
اس سال کا حاصل گزشتہ سے کہیں زیادہ تھا۔ ایک دن میاں نے سرپرائز انٹر کے داخلہ فارم کی صورت دیا۔
اللہ میری استطاعت سے بڑھ کر مجھے نواز رہا تھا۔
اب ایک نیا مرحلہ تھا۔ لیکچر اور مطالعہ دونوں کے نوٹس لکھنے کی طرف ایک سہیلی نے توجہ دلائی لہذا نوٹس لینے بھی شروع کر دیے۔
پیپرز کی تیاری کے دوران انگلش اور عربی زبان میں کمی کا احساس ہوا تو اس سے اگلا سال ان دو زبانوں کے سیکھنے کا تھا۔
انھی زبانوں میں سننا، لکھنا، پڑھنا اوڑھنا بچھونا بن گیا۔ اب ترجمہ قرآن، احادیث، لیکچر سب انھی زبانوں میں سنتی اور بچوں سے ٹوٹی پھوٹی زبان میں بات شروع کر دی۔
سورۃ البقرہ انگلش ترجمہ کے ساتھ سو سے زائد بار سنی. ایک لیکچر پچاس پچاس بار سنتی. حافظہ کمزور تھا، چھ ماہ بعد دونوں زبانیں کچھ کچھ سمجھ آنے لگیں۔کچن اکیڈمی
ان زبانوں میں لیکچرز کے ساتھ انبیاء کی کہانیاں، تاریخی واقعات، بچوں کی کہانیاں سبھی کچھ بار بار سنتی۔
انگلش گرائمر عثمانیہ یونیورسٹی کی sumita raiy سے سیکھی۔
چار سالوں کا جائزہ لیا تو خود بھی حیران رہ گئی۔ معلومات، فہم قرآن، زبان دانی میں زبردست اضافہ تو ہوا ہی تھا۔شخصیت میں ٹھہراؤ، وقار اور اثر اندازی پیدا ہو گئی تھی۔ سب ہی سے بات کرنے کے لیے اب میرے پاس بہت کچھ تھا۔ ہر ہر انداز میں گویا نکھار آیا تھا۔
پھر جیسے اللہ نے زبان کی گرہ کھول دی، پڑھنا لکھنا سمجھنا آسان کر دیا۔
آپ بیتیاں، سفر نامے، ناول، افسانے، سب ہی کچھ پڑھا۔ نسیم حجازی نے ابتداء میں بہت متاثر کیا۔
پھر لٹریچر، حالات حاضرہ، کمپیوٹر، تاریخ، فلسفہ، منطق، جغرافیہ، علوم عمرانی، سیاست، معیشت، سب کچھ پڑھتی چلی گئی۔ کچن اکیڈمی کا یہ سفر انقلابی سفر تھا۔کچن اکیڈمی
انٹر، بی اے، ایم اے اور اب ایم فل میں داخلہ لے چکی ہوں۔ بچے بھی اب بڑے اور ذمہ دار ہو گئے ہیں۔ گھر الگ ہو گیا ہے، ساس سسر میرے ساتھ ہی ہیں۔
گھر کا پورا ماحول علم و ادب، مکالمہ، مباحثہ کے گرد گھومتا ہے۔
محلے کے بچوں کے لیے ہفتہ وار تربیتی کلاس رکھی ہے۔ ان بچوں کی ماؤں کا کہنا ہے اسکول ہفتہ بھر اتنا نہیں سکھا پاتا جتنا آپ ایک دن میں سکھا دیتی ہیں، اجتماعیت سے جڑنے کے بعد تو نہ پوچھیں لگتا ہے جیسے جذبوں کو پر لگ گئے ہوں۔کچن اکیڈمی
اب کچن اکیڈمی کا کیا ہوا؟
مسکراتے ہوئے بولیں: ہونا کیا تھا، اس نے پورا گھر ہائی جیک کر لیا ہے۔
سوال و جواب میں گھنٹہ گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا.
واپسی کے سفر میں سوچ رہی تھی۔ عورتوں میں معروف سب سے بڑا بولا جانے والا جملہ
“وقت نہیں”،
ایک بہانہ ہے۔
“زرائع اور وسائل نہیں”،
کچھ نہ کرنے والوں کے لیے ڈھال ہے۔
اپنے گھر میں کچن اکیڈمی کی تعمیر زیر غور ہے۔
سوچا آپ کو بھی بتا دوں۔
کچن اکیڈمی