Eidu fitar 2020
تحریر : لبنٰی جمشید
عید کا لفظ ”عود“ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ”لوٹنا“ کے ہیں۔ عید کے لفظی معنی بار بار لوٹ کے آنے کے ہیں اصطلاحی معنوں میں یہ ایک خوشی کا ایسا تہوار ہے جو بار بار لوٹ کر آۓ۔
عید کا تہوار رمضان المبارک کے اختتام پر خوشی کے طور پر یکم شوال کو منایا جاتا ہے۔ یوں تو عید کا تہوار بچے , بڑوں اور بوڑھوں سب کے لیے یکساں اہمیت کا حامل ہے لیکن خاص طور پر خواتین عید الفطر کی تیاریوں کے حوالے سے انتہائی پرجوش نظر آتی ہیں ۔ ان کی تیاریاں عید سے کافی دن قبل شروع ہو جاتی ہیں۔ آج ہم عید الفطر کے حوالے سے خواتین کی تیاریوں اور سیلیبریشن کا جائزہ لیں گے۔
عید کی خریداری
ایک مفکر کا قول ہے کہ انسان خوب سے
خوب تر نظر آنے کی خواہش میں توانائی اور دولت دونوں لٹا سکتا ہے۔ یہ بات خواتین کی عید کی شاپنگ کے مصداق پورا اترتی ہے۔ عام طور پر خواتین عید کے کپڑوں کی خریداری رمضان کے پہلے عشرے سے ہی شروع کر دیتیں ہیں۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ اپنے لیے آرام دہ خوبصورت اور منفرد ڈریس کا انتخاب کریں کیونکہ عموماََ عیدکے دن مصروفیت میں گزرتے ہیں اس لیے وہ ایسا لباس منتخب کرتیں ہیں جسے پہن کر امور خانہ داری بھی نبٹا سکیں۔
کراچی میں فیشن انڈسٹری سے وابستہ ایک ڈیزائنز، اقصہ نے بتایا کہ عید پر ہر خاتون کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ تیاری میں بالکل منفرد نظر آئے۔ منفرد نظرآنا ہر لڑکی کی خواہش اور ایک فطری بات ہے۔ اسی طرح خواتین عید کا جوڑا پسند کرنے میں بھی اس روایت کو برقرار رکھتی ہیں اور کافی وقت لگانے کے بعد انھیں کوئی جوڑا پسند آتا ہے۔
کراچی کی ڈریس ڈیزائنر، انعم نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ‘ان دنوں جو گرمی پڑ رہی ہے اس میں خواتین ویسے ہی روزمرہ میں ہلکے کپڑوں کو ترجیح دے رہی ہیں۔ اسی طرح، عید کے جوڑے کیلئے بھی خواتین کا انتخاب ہلکے لان کی ’کرتی اور ٹراؤزر’ سوٹ ہیں، جن پر لائٹ سی کڑھائی کا کام ہوا ہو۔
اس کے علاوہ گھر کے دیگر افراد خصوصاََ بچوں کی خریداری کا انحصار خواتین کے کندھوں پر ہوتا ہے۔ زراسوچیں رمضان المبارک میں روزے کی حالت میں گھر کے دوسرے کاموں کے ساتھ افطاری بنانا پھر عید کی شاپنگ کرنا انتہائی مشکل ٹاسک ہے لیکن ہمارے معاشرے میں خواتین یہ سب کام بخوبی کر یتی ہیں۔
اس سال رمضان 2020 میں موجودہ حالات کے پیش نظر جہاں شاپنگ ایک مشکل ترین مرحلہ ہے وہاں بازاروں میں موجود خواتین کا اژدہام یہ ثابت کرتا ہے کہ وبا سے لڑنے کا حوصلہ ان ہی خواتین میں موجود ہے۔ جو کسی بھی نتائج سے بے نیاز اور وبا کے خوف سے آذاد خریداری میں مصروف عمل ہیں۔
اس کے علاوہ آن لائن شاپنگ کے حوالے سے اس سال پاکستان کا گراف گذشتہ سالوں کی نسبت بلندی کو چھو رہا ہے۔ کپڑوں کے علاوہ جوتے, جیولری , میک اپ کے سامان پرفیومز وغیرہ کی دکانوں میں چاندرات تک خواتین کا رش رہتا ہے۔
چاند رات کی تیاریاں
عید کے دن کی طرح چاند رات بھی خواتین کے لیے بہت اہم ہوتی ہے۔ اس رات عید کی تیاریوں کو حتمی شکل دی جاتی ہے۔ نو عمر لڑکیاں چاند رات کہ چوڑیاں پہننے اور مہندی لگوانے مارکیٹ ضرور جاتیں ہیں جہاں سے وہ ہاتھ پیروں پر خوبصورت نقش و نگار بنوا کر واپس آتی ہیں ۔ اس کے علاوہ بیوٹی سیلونز پر رش قابل دید ہوتا ہے ۔ سب سےخوبصورت نظر آنے کی خواہش میں فیشل, سکن پالش, مینی پیڈی کیئر, ہیئر ٹریٹمنٹس اور مساج کروایا جاتا ہے۔
خواتین گھروں میں کپڑوں کی استری اور انہیں ہینگ کرنے میں مصروف ہوتیں ہیں تا کہ اگلی صبح نماز عید کی ادائیگی کے لیے بروقت جایا جاۓ۔ اس سب کے بعد انہیں کچن کی تیاریوں کو حتمی شکل دینا ہوتی ہے۔ شیر خرمہ کے لیے میوہ جات کاٹنا, چکن دھو کر رکھنا, کباب اور رول وغیرہ بنا کر فریج میں رکھنا, سبزیاں کاٹ کردھو کر رکھنا چاٹ کے لیے چنے اور آلو ابالنا اس طرح کے چھوٹے کام وہ چاند رات کو ہی انجام دیتیں ہیں تاکہ عید کے دن کو بھرپور انجواۓ کرسکیں۔
عید کی تیاریوں کی چکاچوند میں میں وه چاند رات کی خصوصی عبادت کو فراموش کر بیٹھتی هیں۔ جس کی بہت فضیلت هے۔
خواتین کے لیے عید کی نماز کا حکم
نبی پاک ﷺ نے خواتین اور لڑکیوں کو عید کی نماز پڑھنے کا کہا تھا یہ بات مختلف مستند احادیث سے ثابت شدہ ہے اس لیے عید کی نماز میں شرکت کرنی چاہیے ۔ آپ ﷺ نے ایک موقع پر یہ بھی کہا کہ حائضہ عورت بھی عید کی دعا میں شریک ہو سکتی ہے۔
حضرت ام عطیہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے حکم دیا کہ عورتوں کو عید الفطر اور عید الاضحی کے دن عید گاہ لے جائیں لڑکیوں ،حیض والی عورتوں اور پردہ نشین خواتین کو بھی ، لیکن حیض والی عورتیں نماز سے الگ رہیں لیکن وہ مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوں ،میں نے عرض کی یا رسول اللہ ہم میں سے کسی ایک کے پاس حجاب نہ ہو تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی بہن اس کو اپنی چادر اڑھادے۔
اسلامی حوالوں سے عید کا دن عورتوں کے لیے افضل ہے اس لیے عید گاہ کی انتظامیہ کو چاہیے کہ عورتوں کے لیے الگ سے پردے کا اہتمام کریں تا کہ وہ عید کی نماز میں شرکت کر سکیں۔ یہاں ضرورت اس بات کو سمجھنے کی ہے کہ عورتوں کا الگ سے عید کی نماز کی امامت کرنا جائز نہیں ہے۔
عید کے دن کی مصروفیات
اسلامی تاریخ پر نظر ڈالیں تو مختلف روایات میں یہ بات ثابت ہے کہ عید کے روز نبی اکرم ﷺ نے حضرت عائشہ اور دوسرے ازواج مطہرات کو حبشیوں کے نیزے اور برچھوں کے مقابلے دیکھنے کے لیے پردے کے اہتمام کیا تھا۔
ہمارے موجودہ معاشرے میں خواتین کا عید کا آدھا دن مختلف پکوانوں کی تیاری اور مہمانوں کی تواظع میں گزرتا ہے۔ نت نئے پکوان بنتے ہیں اور اہل خانہ کو مزے مزے کے زائقے سے روشناس کروایا جاتا ہے۔
اس کے ساتھ ٹیلی فونز اور سوشل میڈیا کے زریعے ایک دوسرے کو عید کی مبارکباد بھی دی جاتیں ہیں ۔ عید کے روز خواتین کا میکے جانا بھی خوشی اور تفریح کاباعث بنتا ہے۔
اگر دیکھا جاۓ تو خواتین کے زرق برق لباس ان کے اشتہا انگیز کھانوں اور گھر کی بہتر مینیجمنٹ کے باعث ہی عید کا لطف دوبالا ہوتا ہے۔
میں اس سال ہوں کہ رب العزت ہمارے ملک کے سیاسی و معاشرتی حالات سدھار دے اور رونا وائرس کی اس وبا سے نجات دے تاکہ لوگ عیدین کی حقیقی خوشیوں سے صحیح معنوں میں لطف اندوز ہو سکیں۔ آمین








