فبای ذنب قتلت
مہوش زاہد
نبی مہرباں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک صحابی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوتے ہیں اور اپنا واقعہ بتانا شروع کرتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالی نے ان کو بیٹی سے نوازا جب بچی اس دنیا میں آئی تو وہ اپنے گھر میں نہ تھے بلکہ اپنے کام کے سلسلے میں گھر سے دور تھے ۔ جب واپسی ہوئی تو دیکھا کہ بچی اچھی خاصی بڑی ہو چکی ہے۔ ہنستی کھیلتی ہے اور باپ سے بے پناہ محبت کرتی ہے لیکن کیا کیا جائے اس بے رحم زمانے کا جس کی روایات کے آگے انسان صدیوں سے مجبور ہوا چلا آرہا ہے ۔ ایک دن اپنی بیٹی کو تیار کیا ۔کہیں دور لے چلے۔ وہاں جاکر ایک گڑھا کھودا ۔ بچی اپنے والد کے لباس پر آنے والی مٹی کو اپنے ہاتھوں سے جھاڑ تی رہی۔ جب گڑھا گہرا ہو گیا تو بچی کو اپنے ہاتھوں سے اس میں دھکیل دیا اور اس پر مٹی ڈالنے لگے یہاں تک کہ اس کو قبر میں زندہ دفنا دیا
۔رحمت اللعالمین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ واقعہ سنتے جاتے اور روتے جاتے ۔
اسی زمانے میں ایک اور شخص تھا جن کا نام زید بن عمرو بن نفیل تھا وہ خاموشی سے گھروں میں سن گن لیتے پھرتے اور کھیلتے ہوئے بچوں کا جائزہ لیتے رہتے ان کی چال ڈھال کو نوٹ کرتے اور اگر یہ محسوس ہوتا کہ ان میں سے کوئی بچی ہے جس کو ماں باپ نے زمانے کے خوف سے لڑکے کا بہروپ دے دیا ہے تو خاموشی سے والدین سے بات کرکے اس کو اپنے گھر لے آتے اس کو پالتے پوستے اور اس کی پرورش کرتے۔ رسول اللہﷺ نے ان کے بارے میں فرمایا جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ زید قیامت میں ایسے اٹھیں گے جیسے اپنی ذات میں ایک امت ۔اسی طرح ایک اور تزکرہ صعصعہ بن ناجیہ کے بارے میں ملتا ہے کہ وہ دوسروں کی لڑکیوں کو خرید خرید کے پالتے تھے۔اور سو سے زاٸد بچیوں کی پرورش انھوں نے کی۔
بعد ازاں انھوں نے رسول اکرمﷺکے دعوت دینے پہ اسلام قبول کیا۔اس پہ انھوں نے پوچھاکہ کیا میری قبل اسلام نیکیوں کا بھی کوٸ صلہ ہے؟تو اللہ کے رسولﷺنے پوچھاکہ تم نے کیا کیا۔اس پہ انھوں نے بیان فرمایا کہ میری دس دس ماہ کی دو اونٹنیاں تھیں وہ گم ہو گٸیں میں ان کی تلاش میں نکلا تو ایک گھر پہ رکا جہاں بیٹی کی ولادت ہوٸ وہ اس کو دفن کرنا چاہتے تھے میں نے اس بچی کو ان دو حاملہ اونٹنیوں کے عوض خرید لیا۔اس کے بعد بھی میں نے بہت سی بچیوں کو اپنایا اور استطاعت کے مطابق پرورش کی۔جس پہ رسول اللہﷺ نے فرمایا اسی کے صلے میں تم مشرف با اسلام ہوۓ۔اس زمانے میں (صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا واقعہ سننے کے بعد) اس سے بڑی انسانیت نظر نہیں آتی۔ یہ واقعے ہے آج سے چودہ سو سال پہلے کے اس معاشرے کا ہے جس کے بارے میں تاریخ گواہی دیتی ہےکہ انسانیت اور عورت کی عزت ناپید تھی۔ آج کے مہذب دور میں سانحہ میانوالی سے زیادہ سفاک واقعہ شاید ہی کہیں ہوا ہو۔
درندگی کے واقعات میں قصور جیسے بے شمار واقعات بھرے پڑے ہیں لیکن ان سارے واقعات کے محرک غیر تھے والد نہی۔ اس سانحے کے عوامل پہ اگر غور کیا جاۓ تو پتا چلتا ہے کہ ایسے مجرمانہ ذہن رکھنے والے ان گودوں میں پلے ہیں جن کے پاس نہ دینی تعلیم کا زیور ہے نہ دنیا کے دساتیر کی ہی کچھ خبر۔جھوٹی اناٶں کو پال پال کر اور سینت سینت کر رکھنے والی عورت کے ہاتھوں میں جب اولاد نرینہ آتی ہے تو بجاۓ تربیت, تہزیب ,طاقت کا درست استعمال, کمزور پہ رحم اور معاشرے کے لیے سود مند بنانے کے ایسے حیوان تیار کرتی ہے جوقدرت کو بھی اپنے ہاتھ میں لے کر مسل ڈالنا چاہتے ہیں۔جہاں بہن کی روٹی چھین کے بھاٸ کو کھلانا ,بیٹے کی ہر ناجاٸز کو جاٸز اور بیٹی کی ذرا سی خواہش کو عذاب سمجھا جاۓ وہاں آپ کیسے ذمہ داریوں کو سمجھنے اور نبھانے والا قوام تلاش کر سکتے ہیں۔
دوسرا پہلو اس سے بھی خوفناک ہے ۔ایک شخص نے اپنی تیسری بیٹی کی پیداٸش پہ خود کو تیل چھڑک کے آگ لگا لی۔شاید اس میں بیٹی کو قتل کرنے کی ہمت نہ تھی۔ذہے نصیب کے وہ اپنی جان لینے کے فعل میں کامیاب نہ ہو سکا۔جب اس سے اس کے عمل پہ بازپرس کی گٸ تو پتا چلا کہ انکے خاندان میں صدیوں سے یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ بیٹی کو جہیز میں مکان گاڑی اور اشیإ ضروریہ کے ساتھ تعیش کے تمام لوازم دٸیے جاتے ہیں۔اور اگر آپ ایسا نہ کر سکیں تو کوٸ آپ کی شہزادی کو ملکہ بنانے پہ تیار نہی ہوتا۔ایک شخص جو متوازن آمدن رکھتاہےاور یہ سب اس کی دسترس سے باہر ہےتو لامحالہ بیٹی اس کو بوجھ اور عذاب ہی لگے گی۔
۔ہمارے معاشرے کی غیر اسلامی روایات نے گھٹن بھری تلخ زندگیوں کے علاوہ کچھ نہی دیا۔چاٶ اور مان کے رشتوں کو قاتل بنا دیا۔اس پہ خواتین کی تعلیم وتربیت کا شدید فقدان کیکر پہ نیم ہے۔
آٸندہ ایسے سانحات رونما نہ ہوں ان کے لیے مجرم کو کڑی اور بروقت سزا دینا ضروری ہے۔اس سزا کی تشہیر بھی کی جانی چاہیے تاکہ ہر ہر شخص قاتل کے بھیانک انجام کو جان لے۔فوری اور شدید ردعمل ہی اس کا حل ہے اور معاشرے کی بقا کا ضامن بھی۔اس کے خلاف فیصلے کی بازگشت کٸ صدیوں پہ محیط ہو گی۔
دیکھنا یہ ہے کہ کیا ارباب اختیار اور ادارے اپنا فرض حالات کے تقاضے کےمطابق نبھا پاٸیں گے
مہوش زاہد
فبای ذنب قتلت