224

بچوں کی پرورش

تحریر شئیر کریں

بچوں کی پرورش

مریم زیبا

بچے پیدا کرنا، ان کی پرورش کرنا، شادی نبھانا، رشتوں کی نمو کرنا اور گھرداری آسان کام نہیں ہے۔ شاید انہی پُرمشقت اور مسلسل خود کو وقف کرنے والے کاموں اور ذمہ داریوں کی وجہ سے تین درجے ماں کے زیادہ ہیں. اسے معاش کی ذمہ داری سے آزاد رکھا گیا، باجماعت نماز پنجگانہ اور نماز جمعہ کے فرض سے مثتثنی کردیا گیا. مسلح جہاد کے فرض عین ہونے کے باوجود خواتین پر یہ فرض نا رکھا گیا۔

نسل انسانی کی بقا اور اس کی نشوونما کے اہم ترین کام کے لیے خواتین کو وقف رکھا گیا۔ ان کے سوا کوئی بھی یہ کام کرنے کے قابل نہیں۔ دنیا کے باقی سارے کام ضرورت پڑنے پر خواتین بھی کر سکتی ہیں مگر خواتین کا کام کوئی اور نہیں کر سکتا۔ وہ replaceable نہیں، ان کا کوئی متبادل نہیں۔

کیا ہم اس اہم ترین اور محنت طلب کام سے بچنا اور جان چھڑانا چاہتے ہیں؟
بغیر ذمہ داری اٹھائے صرف لذت پرستی چاہتے ہیں؟
پابندیوں کے بجائے غیر مشروط آزادی چاہتے ہیں؟
ہم کیا اس لیے کیریئر، ترقی اور آزادی نسواں کے نعرے لگاتے ہیں؟
کیا ہمارے پاس یہ اختیار ہے کہ ہم اس اہم ذمہ داری کو اٹھانے کے بجائے دوسرے آسان کام کریں جن سے بظاہر آزادی اور دولت کا حصول ممکن ہوتا نظر آتا ہے؟ (یہاں علماء بتا سکتے ہیں کہ شادی خانہ آبادی اور بچے پیدا کرنا ہر ایک پر فرض ہے کہ نہیں؟)

ہم جو چاہتے ہیں اسی کی کوشش کرتے ہیں۔ کیا ہم دعوی کسی اور چیز کا کرتے ہیں مگر دن رات کسی اور کام میں مصروف رہتے ہیں؟

عزت سکون اور قدردانی کے سب خزانے اللہ رب العزت کے دست مبارک میں ہیں۔ مگر ہم اسے کہاں تلاش کررہے ہیں؟
یہ کچھ سوالات ہیں جو ہمیں خود سے پوچھنے چاہئیں۔

“اے اللہ ! مجھے ایسا کردے کہ میں تیری نعمتوں کی شکر کی عظمت و اہمیت کو سمجھوں (تاکہ پھر شکر میں کوتاہی نہ کروں) اور تیرا ذکر کثرت سے کروں اور تیری نصیحتوں کی پیروی کروں اور تیری وصیتوں اور حکموں کو یاد رکھوں (اور ان کی تعمیل سے غفلت نہ برتوں) آمین.
(ترمذی)

بچوں کی ہرورش


اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں