دورہ قرآن نوٹس۔۔۔۔۔۔ جزو اول
بد گوئی ۔۔۔ایسا عیب جو انسان کے ہر کمال کو زوال میں بدل دے
اللّٰہ اس کو پسند نہیں کرتا کہ آدمی بد گوئی پر زبان کھولے یہاں مسلمانوں کو بلند درجہ اخلاقی تعلیم دی گئی کہ اگر مظلوم ظالم کے خلاف بد گوئی پر زبان کھولے تو اسےاس کا حق پہنچتا ہے۔لیکن پھر بھی افضل یہی ہے کہ !!
ہر حال میں بھلائی کیئے جاؤ اور برائیوں سے درگزر کرو اسی طرح تم رب کا قرب حاصل کر سکو گے ۔
( سورہ نساء آیت 147)
🔅🔆 دین کے معاملے میں غلو نہ کرو
یعنی کسی کی مخالفت یا حمایت میں حد سے آگے اتنا تجاوز نہ کرو کہ شکوک وشبہات کو ہوا دے کر اہم چیزوں کو غیر اہم اور غیر اہم کو اہم بنا کر تمہیں دین سے پھیر دیا جائے
یہاں مخاطب تو یہودی اور عیسائی ہیں لیکن !! ہم مسلمانوں کا بھی یہی حال ہوچکاہے ۔
(سورہ النساء)
بے شک قرآن پاک ایک دلیل روشن ہے
اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخئہ کیمیا ساتھ لایا
دنیا نے دیکھا کہ غارحرا سے پھوٹنے والی کرنوں نے دیکھتے ہی دیکھتے جہالت کی تاریکی کو روشنی میں ایسا بدلا کہ عرب کے ازلی دشمن باہم شیروشکر ہوگئے ۔
سورہ النساء رکوع 24
نیکی کے کام میں تعاون کرو
نیکی کے کاموں میں تعاون کی تلقین کی گئی چاہے وہ کام غیر مسلم ہی کیوں نہ کر رہا ہو۔ دین میں موجود احکامات اصل میں معاشرے سے شر و فساد ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گناہ و زیادتی کے کاموں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جانے کا حکم بھی موجود ہے۔
(سورۃ المائدہ- رکوع1)
بندشوں کی پوری پابندی کرو
سورہ مائدہ کا نزول ہوا تو اسلام ایک ناقابل شکست طاقت بن چکا تھا.
مسلمانوں کو مذہبی،تمدنی، اور سیاسی احکامات جاری کرتے ہوئے دور جاہلیت کی پابندیوں سے آزاد کیا گیا کھانے پینے کی اشیاء میں حلال حرام کی حدود مقرر کی گئیں اور سفر حج کے آداب مقرر کئیے گئے۔
(پارہ 6 سورہ المائدہ رکوع1)
ربع تا نصف (جزو دوم)
حرام کی خواہش جسمانی اور اخلاقی, روحانی بیماریوں کی جڑ ہے
مردار , خون , خنزیر , غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ حرام قرار دیا گیا.. ساری حرام کردہ اشیاء کا انسان کی اخلاقی حالت پر منفی اثر پڑتا ہے , طہارت کے خلاف ہیں یا انکا کسی فاسد عقیدے سے تعلق ہوتا ہے ..انکے اخلاقی مفسدات کو ناپنے کا کوئ پیمانہ نہیں اس لیئے اسکا انحصار اور مدار اللہ کی تعلیمات پر پختہ ایمان اور عمل ہی ہوسکتا ہے..
جوئے کی اقسام کے کھیل تماشوں کی ممانعت
دین اسلام میں جوئے کی اقسام کے تمام کھیل تماشے , جن میں انعام کے حصول کا معیار حقوق , خدمات یا عقلی فیصلے کے بجائے کسی اتفاقی نتیجے پر رکھا جائے حرام قرار دیئے گئے … آج کل میڈیا پر جس قسم کے گیم شوز , فضول حرکات پر مبنی انعامی مقابلے جس میں فرد کی صلاحیت اور محنت کے بجائے اتفاقی رائے اور من مانے فیصلوں پر انعام دیئے جاتے ہیں کسی طور جائز اور قابل قبول نہیں….
ایمان اور اخلاق کی ہر ممکن حفاظت
اہلِ کتاب کی پاکدامن عورتوں سے نکاح کی اجازت دی گئ مگر ساتھ ساتھ متنبہ کردیا گیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کافر بیوی کی رفاقت ایمان و اخلاق کے ضیاع کا مؤجب بن جائے اور آخرت کے ابدی نقصان کا باعث بن جائے …
انتخاب صاف سیدھی شاہراہ کا یا ٹیڑھے میڑھے رستوں کا
“سواء السبیل ” , ایک ایسی صاف اور سیدھی شاہراہ زندگی جو بے شمار ٹیڑھے اور غلط راستوں کے درمیان سے گزرتی ہے .. انسان کی رہنمائ اس حقیقی منزل کی طرف کرتی ہے جو اللہ کی رضا اور ابدی فلاح پر مبنی ہے.. اس پر چلنے والا دنیا و آخرت میں پاکیزہ زندگی پائے گا … جس نے اس راہ کو چھوڑا وہ ہمیشہ کی گمراہی کا خریدار بنا …
حدود اللہ کی مستقل پامالی پر وعید
بنی اسرائیل کو موسٰیؑ کے دور نبوت میں متعدد بار انکی سرکشی پر اللہ کی طرف سے سزا اور تنبیہات کا سلسلہ جاری رہا، رسولؑ کی نافرمانی اور حدود اللہ کی مستقل پامالی کے سبب یہ مختلف آزمائشوں کا شکار رہے مگر ہر کچھ عرصے کے بعد یہ باغیانہ روش اختیار کرلیتے.. انکی گزشتہ نافرمانیوں کا ذکر کرکے انہیں متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر محمدﷺ کے ساتھ بھی یہی ہٹ دھرمی دکھائ تو پھر عذاب سے بچنے کا کوئ راستہ نہ مل سکے گا .
چھٹا پارہ
جزو سوم (نصف)
اللہ متقیوں کی نذریں قبول کرتا ہے
قرآن میں بیان کردہ ہابیل اور قابیل کے قصے سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ۔۔۔۔
اللہ کے حضور نذر پیش کی جائے یا دیگر اعمال صالحہ ،
اللہ صرف وہی نیکی قبول کرتا ہے جس میں اخلاص نیت اور خوف خدا شامل ہو۔ورنہ بڑی سے بڑی نیکی بھی ضائع کردی جاتی ہے۔
ایک انسان کا بے وجہ قتل تمام انسانیت کا قتل ہے
اور جس نے ایک انسان کی جان بچائی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی،
قرآن بتاتا ہے کہ صرف قتل یا فساد فی الارض کے جرم کے سوا کسی انسان کی جان نہیں لی جا سکتی۔شریعت میں انسانی جان کے تحفظ کا قانون موجود ہے مگر افسوس آج قاتل کو معلوم نہیں وہ کیوں قتل کررہا اور نا مقتول کو پتا ہوتا ہے کس جرم میں مارا گیا۔
فساد فی الارض کی انتہائی سزائیں
کسی خطۂ زمین میں اسلامی نظام کے نفاذ کے بعد اس کے خلاف ہر سطح کے فساد کی بہت سخت ترین سزائیں بتائی گئی ہیں ، وہ مخالف سمت سے ہاتھ پاؤں کا کاٹنا،جلا وطن کردینا یا سولی پر چڑھادینا بھی ہو سکتی ہیں، یہ دنیوی سزائیں ہیں اور آخرت میں اس سے بھی بڑی سزا کی وعید ہے۔
اللہ کا قرب حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ اس کی راہ میں مجاہدہ ہے
مومن کو اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے دنیا میں اللہ کے دین کی راہ میں تمام مزاحم قوتوں کے خلاف ہر محاذ پر بیک وقت چومکھی لڑائی لڑنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
تقرب خداوندی کے مقام عروج پر پہنچنے کا یہ واحد ذریعہ ہے۔ اس راہ میں کوئی شارٹ کٹ نہیں۔
منافقین اور یہود کی سرگرمیوں سے دل شکستہ نہ ہوں
معرکۂ خیر و شر میں مخالفین کی دوڑ دھوپ اور تیز گامی سے پیغمبر ﷺ اور انکے پیروکاروں کے حوصلے پست نہیں ہوں ،نہ دل شکستہ ہوں نہ ہمت ہاریں، بلکہ پوری دلجمعی سے بندگان خدا کی اصلاح کا عمل جاری رکھیں۔
خدا کے قانون کے مقابلے میں ہر طریقہ زندگی دراصل جاہلیت ہے
قرآن کہتا ہے “اے محمد ﷺ تم خدا کے قانون کے مطابق فیصلہ کرو” جو خدا کے قانون سے منہ موڑتا ہے وہ فاسق ہے، اور جاہلیت کا فیصلہ چاہتا ہے۔
اسلام اللہ کے بتائے ہویۓ طریقے کے مقابلے میں ہر طریقہ زندگی کو دراصل جاہلیت کا طریقہ قرار دیتا ہے، کیونکہ اسلام کا طریقۂ زندگی اور قوانین سراسر علم پر مبنی ہیں اور اس کے خلاف جو کچھ ہے وہ انسانوں کی خواہشات ہیں۔
خواہ وہ جاہلیت زمانۂ قدیم کی ہو یا آج کے دور جدید کی۔
پارہ نمبر6 (جزو چہارم ثلث)
ایمان کے بعد کفر
کسی ایمان والے کا ارتداد اللہ کا کچھ بھی نہیں بگاڑسکتا ایمان تو ایک نعمت تھی جس کی مرتد نے ناقدری کی،،،،، اللہ اپنے فضل سے اورجس کوچاہے گا نواز دے گا اس کے ذرائع بہت وسیع ہیں اور وہ علیم ہے۔
شریعت کو نافذ کرنا
اللہ کا قاعدہ ہے اس کی بھیجی ہوئی کتابوں کو نافذ کرنے والوں کے لئے صرف جنت ہی نہیں بلکہ دنیا کے بھی تمام وسائل رزق اور خوشحالی لکھ دی جاتی ہے۔
اجارہ (کسی کو اپنی پناہ میں لے لینا)
اللہ کے نزدیک اجارہ نہ تو مسلمانوں کا ہے نہ یہودیوں کا نہ صابیوں کا نہ عیسائیوں کا جو بھی اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لائے گا اور اس کے مطابق نیک کام کرے گا صرف اسی کو خوف اور رنج سے بچایا جائے گا۔
نہی عن المنکر کے فریضے سے غفلت کا انجام
حضرت داؤد اورحضرت عیسی علیہم السلام کی زبانی بنی اسرائیل کے ان لوگوں پر لعنت کی گئی کی جو سرکش ہو گئے تھے اور انہوں نے ایک دوسرے کو برے اعمال سے روکنا چھوڑ دیا تھا۔ اللہ ان پر غضبناک ہوا اور وہ دائمی عذاب میں مبتلا ہونے والے ہیں۔