کالم کیسے لکھیں؟
تحریر : لبنٰی جمشید
کالم عربی کے لفظ کلیم سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں ”کلام کرنے والا“ یہ لقب حضرت موسی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جب انہوں نے کوہ طور پر اللہ سے کلام کیا تھا۔ اس کے علاوہ ایک ایک اصطلاح کالم فرانسیسی لفظ(Columna)اور لاطینی زبان کے لفظ(Colomne ) سے بھی ماخوذ ہے۔جس کے معانی(کھمبا یا ستون )کے ہیں۔
ہم نے اکثر اخبارات میں کالمز پر مشتمل ایک مخصوص صفحہ ضرور دیکھا ہے جس میں مختلف سیاسی و ادبی کالم نگاروں کی تحریریں ہوتیں ہیں۔ کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ وہ کالم کن ادوار سے گزر کر ہمارے سامنے پبلش شدہ حالت میں ہوتا ہے؟۔ دراصل کالم کہانی یا مضمون سے ہٹ کر ای الگ صنف ہے جس میں معلومات, اسلوب, بیانیہ اور ادائیگی سے ہٹ کر ایک چیز ”تحقیق“ شامل ہوتی ہے۔ صحافتی اصطلاح میں کالم ایسی تحریر کو کہتے ہیں جس میں موجودہ حالات و واقعات (کرنٹ ایشوز) پر دلائل سے اظہار خیال کیا جائے۔
عطاء الحق قاسمی کے”کالم ایک تحریری کارٹون ہوتا ہے جس میں کالم نویس الفاظ سے خاکہ تیار کرتا ہے
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر کالم کس طرح لکھا جاۓ کہ وہ مضمون یا پھر کہانی سے ایک الگ پہچان لیے کالم کی ہی صنف میں اس کے مکمل لوازمات کے ساتھ نظر آۓ ۔۔ اس کے لیے ہمیں سب سے پہلے کالم اور مضمون کا بنیادی فرق سمجھنا ہو گا۔۔
مضمون اور کالم میں فرق
مضمون کسی شخصیت یا چیز کے حوالے سے معلومات کو ایک منظم شکل دینے کا نام ہے جبکہ کالم حالات حاضرہ یا کسی واقعے کو وسیع مطالعہ، مشاہدہ، مصدقہ اور تازہ ترین معلومات کے تناظر میں لکھی جانے والی تحریر کو کہتے ہیں۔
کالم نگاری کی اقسام:
کالم نگاری کا کینوس خاصا وسیع ہے لیکن برطانیہ کے نامور صحافی اسٹیورٹ جان کے نزدیک بنیادی اقسام درج زیل ہیں ۔ جن سے مذید کئی شاخیں نکلتی ہیں۔۔
اسلوبی اقسام:
اس میں افکاہی کالم(مزاحیہ انداز )،سنجیدہ، اقتباسی ،ترکیبی مکتوبی،اور علامتی کالمز شامل ہیں۔
موضوعاتی اقسام:
طبی،دینی،قانونی،نفسیات، اقتصادیات، کھیل پامسڑی(علم نجوم)اور فیشن اور دیگر ٹرینڈز پر لکھے گئے کالم موضوعات کی کیٹیگری میں آتے ہیں۔
مشاہداتی کالم
سیاحت و تفریح کے موضوع اور ڈائری نما کالمز مشاہداتی کالز کے زمرے میں آئیں گے ۔
کالم نگار کی ذمہ داری
کالم نگاری بلاشبہ صحافت کےزمرے میں آتی ہے ۔ ایک کالم نگار کی زمہ داری مصدقہ اور باوثوق زرائعے سے معلومات کو اپنی آرا سے آراستہ کر کے عوام تک پہنچاناہے تا کہ وہ حق و باطل میں تمیز کرنے کے قابل ہو۔ ایک کالم نگار کی تحقیق کا دائرہ کار چند دنوں سے لے مہینوں تک بھی وسیع ہو سکتا ہے ۔ اس کے بعد وہ معلومات کا نچوڑ صفحہ قرطاس پر اتارتا ہے۔
چیخوف روسی ادب کا تابندہ ستارہ
کالم نگاری کا دائرہ کار:
کالم نگاری کا دائرہ کار اور دائرہ عمل اس قدر وسیع ہوتا ہے کہ اس کی سماجی و سیاسی،تہذیبی و تمدنی،اخلاقی وسعت اور معنویت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے ۔اس کے اعتراف میں اکبر الہ آبادی نے کچھ یوں شعر کہا ہے۔
کھینچو نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو
جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو
اس سے واضع ہوتا ہے ایک کالم معاشرے میں کس قدر فعال ہے اور اس کے نتیجے میں کیا کیا تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں۔
کالم لکھنے کے مقاصد
سب سے پہلے ہمیں یہ سوچنا ہے کہ ہم کالم لکھنا چاہ رہے ہیں تو اس کے پیچھے کونسے عوامل ہیں ہمارا مقصد عوام کی اصلاح ہے۔ معلومات بہم پہنچانا ہے یا محض ہم اپنی مشہوری کے لیے کسی بھی خبر کی تشریح کے ساتھ کالم نگاری کی دنیا میں وارد ہونا چاہتے ہیں۔ جب انسان ا مقصد واضح ہو جاتا ہے تو اس کے لیے آئیندہ کے رستے ہموار ہو جاتے ہیں۔
کالم کس موضوع پر لکھا جاۓ؟
کالم لکھنے کے لیے موضوع کی کوئی قید نہیں ہوتی ہے۔ اس کے لیے کسی بھی موضوع کو چنا جا سکتا ہے لیکن ایک اچھا کالم وہی ہوتا ہے جو حالات حاخرہ کے موضوع پر کچھ اس طرح سے لکھا گیا ہو کہ اسے جس دور میں بھی پڑھا جاۓ وہ اسی دور کی عکاسی کرتا ہو۔ اس حوالے سے منو بھائی۔ حسرت موہانوی اور جدید دور کے کالم نگار ندیم پراچہ اور جاوید نقوی کے کالمز ہیں جو سدا بہار ہوتے ہیں۔
کالم کا اسلوب
کالم نگاری کی زبان اور اسلوب سادہ مگر پر اثر ہونا چاہیے۔ اگر اس میں ادب کی چاشنی شامل ہو جاۓ تو کیا بات ہے۔
ہمارے یہاں المیہ یہ ہے کہ کالم کو محض ایک خبر کی تفصیل کے زمرے یں ڈال دیا گیا ہے۔ اس کی اصل نبض پر ہاتھ رکھنا کسی ماہر کالم نگار کا ہی کام ہے۔ اس کے لیے معلومات کی ترسیل کو اس انداز س پہنچانا اہم ہے جو دل پر اثرانداز ہو۔ جو تحریر دل سے لکھی جاتی ہے وہی پر اثر ہوتی ہے۔ ایک تو خداداد صلاحیت ہوتی ہے ۔اس میں زیادہ محنت اور تردد نہیں کرنا پڑتا۔ محض اپنے موضوع سے متعلق معلومات اکٹھی کیں ۔ ان پر ضروری ریسرچ اور مصدقہ و مستندہ کی مہر ثبت کروائی اور اپنے ایک خاص انداز سے لکھ کر عوام کے ہاتھوں کے میں پہنچا دیا۔ پھر آپ کا وہ منفرد انداز آپ کی پہچان بن جاتا ہے
کالم کا ابتدائیہ
کالم کیسا لکھیں؟کہ قاری پورا پڑے بغیر رہ نا سکے،اس کے لیے ضروری ہے کہ کالم کی شروع کی چند لائینیں ہی قاری کو مکمل تحریر پڑھنے پر مجبور کرتیں ہیں۔ کالم کا آغاز ایک جاندار فقرے سے کرنا چاہیے ۔۔ مثال کے طور پر ہم ایک سیاسی کالم کسی شخصیت کو لے کر لکھ رہے ہیں تو سب سے پہلے اس کا تعارف اس انداز میں دیا جاۓ کہ وہ قاری کو چونکا دے کہ وہ مکمل پڑھنے پر مجبور ہو جاۓ کہ اس شخصیت کے منفی یا مثبت پہلو زیر بحث آنے والے ہیں یا پھر کارکردگی۔
مشاہدے کو بیان کرنا
اس کے بعد اپنےمشاہدے کی روشنی میں وہ مدعا لکھے جسے وہ بیان کرنا چاہتا ہے۔انگریزی کے حروف کا جابجا استعمال کالم کی بنت کو مثاتر کرتا ہے اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔کال مارکس کے نزدیک کالم پڑھنے والا شخص عام آدمی ہوتا ہے اس لیے مشاہداتی ترسیل ایک عام آدمی کی ذہنی سطح کو مدنظر رکھتے ہوۓ کرنا ضروری ہے۔
کالم کا اختتام
کالم کیسے لکھیں؟ ہمیشہ اپنی راۓ کا اندارج کر کے ایک خوبصورت منزل پر چھوڑنا چاہیے۔ اختتام چونکا دینے کے بجائے سوچنے پر مجبور کرتا ہو ۔اصلاحی ہونا ضروری نہیں لیکن اس کو پڑھ کر انسان کے اندر اپنی او معاشرے کی اصلاح کا جذبہ ضرور بیدار ہو۔
ٹارگٹ کالم نگاری
ہمارے یہاں گذشتہ چند سالوں سے ایک ٹرم ”ٹارگٹ کالم نگاری“ بہت استعمال ہو رہی ہے ۔ کسی ایک موضوع یا شخصیت کو خاص طور پر اچھے یا برے انداز میں ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔ اگر مفاد میں ہے تو مفاد پرستی کی حد ہو جاتی ہے اور اگر خلاف ہے تو وہ چیزیں بھی ڈھونڈ کر نکالی جاتیں ہیں جن خامیوں کا خود انسان کو علم نہیں ۔اس طرح کی کالم نگاری میں آجکل دو بڑے نام ہیں جو اپنی پسندیدہ اور نا پسندیدہ شخصیت کی پرتیں اتارنے میں مصروف عمل ہیں اس سے صحافت کا میعار تباہ ہو کر رہ جاتا ہے۔ اس حوالے سے میں نے ایک کالم براۓ کالم تحریر کیا تھا جس میں ٹارگٹ کالم نگاری کی مذمت کے ساتھ اس کالم کے متن کا جواب بھی تھا۔ اگر آپ ایک اچھے کالم نگار بننا چاہتے ہو تو ہمیشہ نیوٹرل ہو کر لکھیں اور وہ لکھیں جس سے آپ کا دل اور ضمیر ملامت نہ کرے
کالم کیسے لکھیں؟کیسا لگا؟